کیا مذہب اب انسانیت کے کام آ سکے گا؟ 


تحریر: یوول نوح حراری – ترجمہ: زبیر لودھی

اب تک جدید نظریات، سائنسی ماہرین اور قومی حکومتیں انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک قابل عمل وژن بنانے میں ناکام ہیں۔ کیا اس طرح کا نظریہ انسانی مذہبی روایات کے کنواں سے نکالا جاسکتا ہے؟ ہو سکتا ہے اس کا جواب بائبل، قرآن یا وید کے صفحات پر ہمارا انتظار کر رہا ہو۔

سیکولر لوگ اس طرح کے خیال پر تضحیک اور شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مقدس صحائف قرون وسطی میں درست ہوں لیکن مصنوعی ذہانت، بائیو انجینئرنگ، گلوبل وارمنگ اور سائبر وار فیئر کے دور میں یہ ہماری کس طرح سے مدد کر سکتے ہیں؟ تاہم سیکولر لوگ اقلیت میں ہیں۔ اربوں انسان آج بھی قرآن اور بائبل پر نظریہ ارتقا کی نسبت زیادہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ مذہبی تحریکوں نے ہندوستان، ترکی اور امریکہ کی طرح متنوع ممالک کی سیاست کو اپنے رنگ میں ڈھال لیا ہے۔ ان مذہبی عداوتوں نے نائیجریا سے فلپائن تک تنازعات کو جنم دیا۔

اس لحاظ سے دیکھنا ہوگا کہ اسلام، ہندو ازم اور عیسائیت کس طرح موجودہ دور کے مسائل کو حل کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں؟

اکیسویں صدی میں روایتی مذہب کے کردار کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین طرح کے مسائل میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

( 1 ) تکنیکی مسائل : مثال کے طور پر بنجر ممالک میں کاشتکاروں کو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے شدید خشک سالی سے نمٹنے کے لیے کس طرح کام کرنا چاہیے؟

( 2 ) پالیسی کے مسائل: مثال کے طور پر حکومتوں کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حرارت کو روکنے کے لیے پہلے کون سے اقدامات اٹھانے چاہیے؟

( 3 ) شناخت کے مسائل: مثال کے طور پر کیا میں دنیا کے دوسری طرف کے کاشتکاروں کے مسائل کی بھی پرواہ کروں یا مجھے صرف اپنے قبیلے اور ملک کے لوگوں کے مسائل کی پرواہ ہی کرنی چاہیے؟

جیسا کہ ہم مندرجہ ذیل صفحات میں دیکھیں گے کہ روایتی مذاہب زیادہ تر تکنیکی اور پالیسی مسائل سے وابستہ نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ شناختی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں وہ ممکنہ حل کی بجائے مسئلے کا ایک حصہ کا حل ہی تجویز کر پاتے ہیں۔

قبل از جدید دور میں مذاہب زراعت جیسے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر تکنیکی مسائل حل کرنے کے ذمہ دار تھے۔ آسمانی کیلنڈر طے کرتا تھا کہ فصل کو کب بونا ہے اور اس کی کٹائی کب ہونی ہے۔ جبکہ مندر کی رسومات نے بارش کو محفوظ بنایا اور فصل کو کیڑوں سے محفوظ رکھا۔ جب خشک سالی یا ٹڈیوں کے حملے کے نتیجے میں کوئی زرعی بحران پیدا ہوا تو کسانوں نے دیوتاؤں سے شفاعت کے لیے کاہنوں کا رخ کیا۔ ادویات بھی مذہبی ڈومین میں چلی گئی۔ ہر نبی اور گرو کی حیثیت دوہری ہو گئی۔ وہ مبلغ کے ساتھ ساتھ معالج بھی بن گیا۔ اس لیے عیسیٰ نے اپنا زیادہ تر وقت بیماروں کو ٹھیک کرنے، اندھوں کو دیکھنے، گونگوں کو بولنے اور پاگلوں کو تندرست کرنے میں صرف کیا۔ چاہے آپ قدیم مصر میں رہتے ہوں یا قرون وسطی کے یورپ میں اگر آپ بیمار ہو جاتے تو آپ کو ڈاکٹر کی بجائے روحانی بابا جی کے پاس لے جانے کا زیادہ امکان ہوتا اور آپ کو ہسپتال لے جانے کی بجائے کسی مشہور و معروف مندر کی زیارت تجویز کی جاتی۔

حالیہ دنوں میں ماہر حیاتیات اور سرجنوں نے کاہنوں اور معجزہ کاروں کے ہاتھوں سے کنٹرول لے لیا ہے۔ اگر اب مصر پر ٹڈیوں کی بیماری حملہ آور ہو جاتی ہے تو مصری لوگ اللہ سے مدد مانگیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیمیا دانوں، ماہرین نفسیات اور جینیاتی ماہرین سے درخواست کریں گے کہ وہ ایسی ادویات بنائیں جو کیڑوں کو تلف کریں اور انہیں گندم کو بچانے کے قابل بنائیں۔ اگر کسی عقیدت مند کا بچہ خسرہ کی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا والد بھگوان سے پرارتنا کرے گا اور مقامی مندر میں پھول اور مٹھائیاں نذرانے کے طور پر پیش کرے گا، لیکن وہ یہ سب کچھ بچے کو مقامی ہسپتال منتقل کرنے کے بعد کرے گا۔ یہاں تک کہ ذہنی بیماری (مذہبی معالجوں کا آخری گڑھ) آہستہ آہستہ سائنسدانوں کے ہاتھوں میں جا رہی ہے کیونکہ علم نیورولوجی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔

سائنس کی فتح اس قدر مکمل ہو چکی ہے کہ ہمارا مذہب کے بارے میں نظریہ بالکل ہی بدل گیا ہے۔ اب ہم مذہب کا تعلق کھیتی باڑی اور ادویات سے نہیں جوڑتے ہیں۔ حتی کہ اس وقت بہت سارے لوگ پرجوش اجتماعی نسیان کا شکار ہیں اور وہ اس بات کو بھول جانا چاہتے ہیں کہ کبھی وہ ان اثرات کے زیر اثر بھی تھے۔ اس لیے اگر ہم انجینئرز اور ڈاکٹروں کی طرف رجوع کر لیں، تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟

روایتی مذہب بہت حد تک اپنی بنیادی ہیئت کھو چکا ہے، کیونکہ سیدھی سادھی سی بات یہ ہے کہ وہ کھیتی باڑی اور صحت کی دیکھ بھال کے معاملے میں اچھے نہیں تھے۔ پجاریوں اور گروؤں کی اصل مہارت کبھی بھی بارش برسانا، صحت یاب کرنا یا پیش گوئی کرنا نہیں رہی بلکہ اس کی ہمیشہ تشریح ہوتی رہی ہے۔ ایک پادری وہ شخص نہیں ہے جو اس بات کا علم رکھتا ہو کہ کس طرح سے موسلادھار بارش برسائی جائے اور خشک سالی کو ختم کیا جائے۔ بلکہ پادری وہ شخص ہے جو جانتا ہے کہ بارش کیوں نہیں ہو رہی ہے اور کیوں ہمیں ہر حال میں اپنے خدا پر یقین رکھنا چاہیے۔

تاہم وہ اپنی اسی ذہانت کو مختلف اقسام کی تشریحات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی بات سائنس دانوں کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے ان مذہبی رہنماؤں کو نقصان میں ڈالتی ہے۔ سائنسدان تجربات میں ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں اور پہلے سے مختلف چیز آزمانے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان آہستہ آہستہ بہتر فصلیں اگانے اور مناسب دوائیں بنانے کا طریقہ سیکھتے ہیں جبکہ پجاری اور گرو صرف بہتر بہانے بنانے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔ صدیوں کے دوران، یہاں تک کہ سچے پیروکاروں نے بھی اس فرق کو دیکھا ہے۔ اسی وجہ ہے کہ مذہبی اتھارٹی زیادہ سے زیادہ تکنیکی شعبوں میں گھٹتی جا رہی ہے۔ جس کی بدولت پوری دنیا تیزی سے ایک تہذیب کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جب چیزیں سچ مچ میں کام کرتی ہیں تو ہر کوئی انہیں اپناتا ہے۔

(جاری ہے)

اس سیریز کے دیگر حصےسیارہ زمین: اکیسویں صدی کے اکیس سبقمسیحی ماحولیات اور مسلم معاشیات

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments