نور قتل کیس: ظاہر جعفر کے والدین کو کیوں گرفتار کیا گیا اور انھیں کیا سزا ہو سکتی ہے؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


 

لاہور، نور مقدم، احتجاج

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی گرفتاری کے بعد سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ان کی گرفتاری کیوں عمل میں آئی اور انھیں کیا سزا دی جا سکتی ہے؟

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو روز کی توسیع کی گئی ہے جبکہ ان کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی اس وقت دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اس دوران وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا ہے کہ ظاہر جعفر، ان کے والدین اور چند ملازمین کو بلیک لسٹ اور شناختی فہرست میں رکھا گیا ہے جبکہ انھیں ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے تجویز کابینہ کو بھیج دی گئی ہے۔

ادھر اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے مطابق قتل کے اس واقعے میں ملزم ظاہر جعفر کے ساتھ ساتھ ان کے والد اور والدہ برابر کے شریک ہیں۔

خیال رہے کہ مرکزی ملزم کے والدین نے گذشتہ روز عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو وہ عید گزارنے کراچی گئے ہوئے تھے اور جب انھیں اس حوالے سے خبر ملی تو انھوں نے فوراً ’ری ہیبلیٹیشن‘ ٹیم کو مطلع کیا تھا۔

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملزم کے والدین کی گرفتاری کیوں عمل میں آئی اور پولیس کی جانب سے انھیں کیا سزا سنائی جا سکتی ہے۔

ظاہر جعفر

ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا؟

ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعات 109 اور 176 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 اعانت مجرمانہ سے متعلق ہے یعنی کوئی جرم سرزد ہونے میں ملزم کی معاونت کرنا جبکہ 176 جائے وقوعہ پر شہادتوں کو مسخ کرنے اور حقائق کو چھپانے سے متعلق ہے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 109 کے تحت قتل کے کسی بھی مقدمے میں صرف ایک شخص کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے اور وہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہیں جنھیں سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں سپریم کورٹ کے وکیل احمد رضا قصوری کے والد کے قتل میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا پر عمل درآمد بھی ہوا تھا۔

پولیس کا کیا مؤقف ہے؟

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایس پی سٹی رانا وہاب نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت ملزم ظاہر جعفر کی مقتولہ نور مقدم سے کسی معاملے پر بحث و تکرار ہو رہی تھی اس وقت ملزم ذاکر جعفر اپنے گھریلو ملازمین کے ساتھ رابطے میں تھے اور گھریلو ملازمین بھی انھیں پل پل آگاہ کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ملزم ذاکر جعفر اور ان کے گھریلو ملازمین کے درمیان جو ٹیلی فونک رابطے ہوئے ہیں اس کا تمام ریکارڈ پولیس نے حاصل کرلیا ہے اور یہ ریکارڈ ملزم کے خلاف ایک اہم ثبوت ہے۔

ایس پی سٹی کا کہنا تھا کہ ’جب یہ وقوعہ ہو رہا تھا تو اس وقت ملزم ذاکر نے پولیس کو ٹیلی فون کرنے کی بجائے ایک ری ہیبلیٹیشن سینٹر والے کو فون کیا اور کہا کہ وہ ان کے گھر جائیں اور دیکھیں کہ کہیں ان کا بیٹا کسی مشکل میں تو نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملزم ذاکر جعفر اس واقعہ کی اطلاع ری ہیبلیٹیشن سینٹر کو دینے کی بجائے پولیس کو بھی دے سکتے تھے جس سے اس بات کے امکانات زیادہ تھے کہ نور مقدم کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔‘

نور مقدم کے والد

ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعات 109 اور 176 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے

رانا وہاب کا کہنا تھا کہ وقوعہ کی رات کو جب مقتولہ کے والد نے ذاکر جعفر کو فون کر کے اپنی بیٹی کے بارے میں پوچھا تھا تو اس وقت بھی ذاکر جعفر نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا جبکہ پولیس افسر کے بقول ملزم کو اس بات کا علم تھا کہ نور مقدم اس وقت ان کے گھر پر موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عید کرنے کے لیے کراچی گئے تھے جبکہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر اسلام آباد میں اپنے گھر میں اکیلا تھا۔

پولیس کے مطابق ذاکر جعفر ’جعفر کنسٹرکشن‘ کمپنی کے مالک ہیں اور یہ کمپنی ذاکر جعفر کے والد اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے دادا کے نام پر ہے۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے بارے میں تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ دو سال سے اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتے تھے جبکہ مقتولہ نور مقدم سے ان کی ملاقات ان دونوں کے مشترکہ دوست کی معرفت کی وجہ سے ہوئی تھی اور وہ دونوں گذشتہ تین سال سے ایک دوسرے کے کافی قریب تھے۔

ملزم کے والدین کی گرفتاری

نور کے قتل کے بعد ابتدائی طور پر پولیس نے ملزم جعفر کے والدین کو گرفتار نہیں کیا تھا تاہم قتل کے ایک روز بعد اس بارے میں پریس کانفرنس میں سوال پوچھے جانے پر پولیس نے کہا تھا کہ ’سیدھی سی بات ہے ہم نے ملزم پکڑ لیا ہے اگر تفتیش میں کوئی ملوث پایا گیا توہم اسے بھی پکڑیں گے۔‘

بعدازاں پولیس نے سنیچر کی رات ڈھائی بجے تصدیق کی کہ ملزم کے والدین اور ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مقدمے میں معدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور کہتے ہیں کہ ابھی تک باضابطہ طور پر مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہوئی اب تک جو بھی تفتیش ہو رہی ہیں وہ اس پر مطمئن ہیں۔

نور مقدم

ملزم کریمینل ریکارڈ یافتہ؟

اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے بارے میں ایس پی سٹی رانا وہاب کا کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں وہ مبینہ طور پر موبائل چھیننے جبکہ امریکہ میں مبینہ طور پر منشیات کے استعمال پر جیل کاٹ چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے وزارت داخلہ کے توسط سے ان دونوں ممالک کے حکام کو خط لکھا ہے جس میں ملزم ظاہر جعفر کے کرمینل ریکارڈ کے بارے میں تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے مطابق ملزم ظاہر جعفر اور مقتولہ نور مقدم کے زیر استعمال موبائل فون کا ڈیٹا تو حاصل کر لیا گیا ہے لیکن یہ موبائل ابھی تک برآمد نہیں ہو سکے۔

پولیس حکام کے مطابق ان دونوں نمبروں پر واٹس ایپ بھی موجود تھا جوکہ فون ڈیٹا کے ریکارڈ میں نہیں آتا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فون ریکور ہونے کے بعد مزید شواہد سامنے آنے کی امید ہے جس سے اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔

دوسری طرف ملزم ظاہر جعفر کو دوبارہ دو روز کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے اور عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ملزم کو 28 جولائی کو دوبارہ پیش کیا جائے جبکہ اس مقدمے میں ملزم کی والدہ اور والد کو منگل کے روز دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp