ملالہ. تھیسس اینڈ اینٹی تھیسس



طالبان جو امریکہ جیسی سپر پاور سے فتح نہیں ہو سکے وہ ایک نہتی لڑکی سے ڈر گئے؟ وہ بھی ایسے جنگجو کہ 3 فٹ کے فاصلے سے ان کا نشانہ چوک گیا اور ملالہ کو وہ مار نہ سکے؟

ایک ڈائری سے وہ اتنا ڈر گئے کہ اس کے لیے ایک بچی کی جان لینے پر آ گئے؟

اور پھر روزانہ سیکڑوں بچے جہاں بھوک سے اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اسی ملک میں ایئر ایمبولینس منگوائی جاتی ہے اور برطانیہ میں لے جا کر علاج کروایا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ 3 فٹ کے فاصلے سے ماری گئی گولی جو کہ گردن کے اوپری حصے میں لگتی ہے وہ نہ صرف بچ جاتی ہے بلکہ مکمل صحت یاب بھی ہو جاتی ہے۔

دنیا بھر میں امن کے لیے کوشاں افراد کو چھوڑ کر امن کا نوبل انعام بھی ملالہ کو دیا جاتا ہے۔

ایک نوبل انعام یافتہ شخص کی پروجیکشن ہمیشہ عالمی سطح پر ہوتی ہے ملالہ کے حالیہ انٹرویو میں شادی کے متعلق ایسا بیان دینا جو ہماری روایات اور مذہب دونوں سے متصادم ہے بالکل قابل قبول نہیں۔ ملالہ خود بڑے ہو کر سیاست میں آنا چاہتی ہیں اور مستقبل کی وزیراعظم بننا چاہتی ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم کا ورلڈ کپ پاکستان کو کتنا مہنگا پڑا ہے اب نوبل انعام یافتہ کا انتظار ہے اس قوم کو۔

ملالہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہیں اور یہ ساری کہانی پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے گھڑی گئی۔ ۔
ہمارا دماغ ہمیشہ اشکال میں سوچتا ہے یہ کبھی بھی الفاظ یا ہندسوں میں نہیں سوچتا۔

ایک لفظ ہے ”ہیرو“ جب بھی یہ لفظ ہم سوچتے ہیں تو پاکستانی فلمیں دیکھنے والوں کے دماغ میں سلطان راہی، شان، معمر رانا، اچھو دا کھڑاک، غنڈہ دس نمبری وغیرہ جیسے کرداروں کی اشکال دماغ میں بنتی ہیں۔ بالی وڈ کی فلمیں دیکھنے والوں میں سلیمان خان، عامر خان، شاہ رخ خان، امیتابھ بچن وغیرہ اور ہالی وڈ کے جیمز بونڈ وغیرہ کے کردار سامنے آتے ہیں۔

پاکستانی ہیروز جو قوم کے ہیرو ہیں ان میں نشان حیدر پانے والے افواج پاکستان کے جوان سر فہرست ہیں۔

عبدالستار ایدھی کے علاوہ شرمین عبید چنائی (آسکر ایوارڈ یافتہ) ڈاکٹر نرگس موالوالہ، علی معین نوازش، ارفع کریم رندھاوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور چند ایسے نام ہیں جو پاکستان کا تعارف ”سافٹ امیج“ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اسی فہرست میں ایک اور اضافہ ملالہ یوسفزئی نوبل انعام یافتہ پاکستان کا ہے۔

یورپ کی یونیورسٹی میں پڑھنے جاتی ہے یا کسی بھی بین الاقوامی تقریب کا حصہ بنتی ہے تو شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ سجائے مشرق کی ثقافت کا استعارہ یہ ملالہ یوسفزئی ہے۔

تعلیم کے لیے آواز بلند کرتی یہ لڑکی تعلیم دشمنوں کو کیوں کر بھائے گی۔ ایک نہتی لڑکی پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے کہ آپ ہوتی کون ہیں تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی۔ لیکن وہ اس حملے میں بچ جاتی ہیں اور اتنی کم عمری میں تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو علم سے روشناس کروانے کے لیے کوشاں ہونے پر اس نہتی لڑکی کو نوبل انعام امن سے نوازا جاتا ہے۔

اب ملالہ کی آواز ملالہ کی ہی صرف آواز نہیں اب یہ پوری دنیا کی آواز ہے۔
پنجاب ٹیکسٹ بک میں جب ملالہ کی تصویر پاکستانی ہیروز کے ساتھ چھتی ہے تو اس پر اتنا واویلا کیوں؟

ملالہ ووگ جیسے میگزین کو انٹرویو دیتی ہے تو سیاق و سباق سے ہٹ کر اس کا بیان پیش کر دیا جاتا ہے اور کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

آپ تھوڑا سا خودپسندی سے نکلیں آپ کو ملالہ ایک نوبل انعام یافتہ اور بین الاقوامی سطح پر جانی پہچانی شخصیت نظر آئے گی جبکہ آپ کو محلے کے علاوہ جانتا بھی نہیں کوئی۔

فیصلہ آپ پر ہے آپ کو ملالہ کا تھیسس پسند ہے یا اینٹی تھیسس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments