ماؤں نے چومنا ہوتے ہیں بریدہ سر بھی


وہ کوئی جنت سے بھجوایا ہوا دنبہ تو نہ تھی جو اس طرح ذبح کر دی گئی۔ اک اور ہالہ نور بحر ظلمات کی عمیق تاریکیوں میں ڈبو دیا گیا۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر تھمے۔ کیا نور کے قتل کے بعد بھی ظلم کی تعریف وہی رہے گی۔ کیا اب بھی ہم خود کو معاشرہ کہہ سکیں گے۔ نہیں صاحب! یہ معاشرہ نہیں ہے، یہ وحشیوں کا جمگھٹا ہے جو ہوس زدہ مدقوق کتوں کی مانند ہمیشہ تاک میں رہتا ہے کہ کب جھپٹا مارنے کا موقع حاصل ہو۔

ایسا ظلم کرنے سے تو منگول بھی قاصر رہے ہوں گے کہ جو سروں کو کٹوا کر ان کے مینار بنوایا کرتے تھے۔ چشم فلک نے بھلا ایسا نظارہ اس پہلے کیوں کر دیکھا ہوا گے۔ سمع آدم نے اس واقعے ایسا کوئی قصہ کب سنا ہوا گا۔ اب گھمنڈ کرنے کو کچھ رہ گیا ہے جو ہم کہہ سکیں کہ حضرت انسان اشرف المخلوقات ہے۔ کہاں کی اشرفیت اور کہاں کی انسانیت۔ اب درندوں کی درندگی کی مثالیں بھلائی جائیں گی۔ کیوں کر نہ بھلائی جائیں کہ ہم نے درندگی میں کل مخلوق کو پچھاڑ دیا ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ انسان نہ ہو۔ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سینے میں دھڑکتا ہوا دل نہ رکھتا ہو۔ سنتے آئے تھے کہ سفاکیت کی حد ہوتی ہے۔ مگر اس بات کو حقیقت سے کچھ تعلق نہیں کہ قتل ہمارے سامنے ہے۔ رہ رہ کر یہ خیال آوے ہے کہ اس کا جرم کیا ہو گا جو اس کو ایسی سزا کا مستحق گردانا گیا۔ کیا اس قتل کا درد کم تھا کہ لوگ آبلہ پائی پے اتر آئے۔ ایک صاحب عقل نے گرہ کھولی کہ نہ نور اسے ملنے اس کے گھر جاتی اور نہ وہ قتل ہوتی۔

بجا فرمایا آپ نے، لیکن اگر وہ نور کو کسی شاپنگ مال، کسی سڑک، یا نور کے گھر میں ہی قتل کر دیتا تو پھر آپ گویا ہوتے کہ نور پاکستان آئی کیوں کر، اگر وہ بیرون ملک قتل ہو جاتی تو آپ پھر فرماتے کہ نور اس ملک میں تھی ہی کیوں، کسی دوسرے ملک میں کیوں نہ تھی۔ کچھ بھی ہو جاتا لیکن آپ نے پھر بھی تاویل کر دینی تھی۔ ایک صاحب کا قول کچھ روز پہلے سنا تھا جن سے تھوڑی شناسائی ہم بھی رکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم یزیدی قوم ہیں۔

جتنی جلدی ممکن ہو یہاں سے کوچ کر جانا چاہیے۔ دار الایمان میں لوگ محفوظ نہیں اور پناہ پھر ملتی ہے تو کہاں، دار الکفر میں۔ گماں ہے کہ اب یہ ملک ہم سے چھوٹا جائے ہے کہ جائے اماں کہیں نہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم بھی نعرہ مستانہ بلند کرتے تھے کہ اس ملک کو کبھو نہ چھوڑنا چاہیے، آسائش چاہے جو بھی میسر آئے۔ مگر اب خیال گزرتا ہے کہ میاں اگر خود کو بچا لو تو پھر بھی غنیمت ہے کجا یہ کہ اوروں کو سہارے دیتے پھرو۔ بزرگوار ایاز امیر نے ایک دفعہ اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اب قوم کو سدھارنے کا بھوت دماغ سے خود ہی اتار پھینکا ہے کہ تبدیلی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ کیا معلوم کہ آج سے کچھ نصف صدی بعد ہمارے ساتھ بھی یہی حادثہ ہو اور پچھتاوا دمن گیر ہو کہ دار الکفر کو کوچ بہتر تھا۔ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں مگر فراز معذور کر دیتے ہیں۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

لیکن ایک شمع بھی اس اندھیر نگری کو کب تک روشن کرے کہ ہر کوئی بجھانے کے درپے ہو جاتا ہے۔ نور ہے تو تاریکیوں میں بھیجی جائے گی۔ عینی ہے تو نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل کر دی جائے گی۔ کسی کا گلہ کاٹا جائے گا، کسی کی پاک دامنی پر داغ لگایا جائے گا۔ کسی کو عزت کی بھینٹ چڑھایا جائے گا۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے مگر یہ ماؤں کا تو کچھ خیال کیا جائے کہ وہ تو اولاد کے مرنے کے ساتھ ہی مر جاتی ہیں۔ آخر ماؤں کا تو لحاظ کیا جا سکتا ہے۔ شاید باقی عورتوں کی تکریم کا خواب یہاں دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

ماؤں نے چومنا ہوتے ہیں بریدہ سر بھی
ان سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments