نج کاری کا بھوت معیشت کے لئے عذاب ؟


\"asafپاکستان میں آج کل پھر نج کاری کا ہنگامہ برپاہے۔ اور اس مسئلہ پر حکومت اور پی آئی اے کے ملازمین کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے جس میں تین ملازمین جاں بحق ہوگئے ہیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ نج کاری کے مسلہ پر ہنگامہ ہمیشہ نواز شریف کے دور میں بھڑکتا ہے ۔ویسے بھی بڑے پیمانہ پر نج کاری کے پروگرام کا آغاز 91ءمیں نواز شریف کے دور سے ہوا تھااس پروگرام کے لئے رہنما مثال برطانیہ میں ٹوری وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے زمانے میں نج کاری کی دی جاتی تھی جس کا اصل مقصد ٹریڈ یونینوں کی کمر توڑنا اور قومی ملکیت کے شعبہ کو ٹکرے ٹکرے کرنا تھا۔ لیکن اب تیس سال بعد برطانیہ میں نج کاری کے تباہ کن نتایج پر ماہر معیشت اور عوام دونوں کف افسوس مل رہے ہیں اور رو رہے ہیں۔ ممتاز کالم نگار پولی ٹوائین بی نے روزنامہ گارڈین میں اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ بجلی کی نج کاری کے بعد دس سال کے اندر اندر بجلی کے بلوں میں 140فی صد اضافہ ہوا۔ پانی کی نج کاری کے فورا بعد پانی کے بلوں میں 74فی صد اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ تباہ کن نج کاری ریلوے کی ثابت ہوئی جس کے بعد ریل کے کرایوں میں دو سو فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ اب لوگ اس قدر پریشان ہیں کہ ریلوے کو دوبارہ قومی ملکیت میں لینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ پولی ٹوائین بی کا کہنا ہے کہ ہمہ گیر نج کاری کے بعد ایک لاکھ 70ہزارافراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سرمایہ کاری میں اضافہ کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔لیکن اس کے مقابلہ میں نجی تحویل میں جانے والے اداروںمیں اونچے عہدوں پر فائیز افراد کی تنخواہوں میں ناقابل یقین تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستا ن میں ایک مشکل یہ ہے کہ حکمران سوچے سمجھے بغیر دوسرے ملکوں کی نقل کرتے ہیں ۔ ویسے بھی مارگریٹ تھیچر کا دور سرمایہ داری کا مثالی کامیاب اور درخشاں دور تصور کیا جاتا تھا ۔پاکستان میں اس کی نقل کرنے والوں نے یہ بات بھلا دی کہ پاکستان اور برطانیہ کے اقتصادی ، سیاسی اور سماجی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
برطانیہ کی اندھی تقلید کے علاوہ در حقیقت پاکستان میں نج کاری کے چڑھتے دریا کی طغیانی کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ایک تو 70کے عشرہ میں بھٹو کے دور میں بغیر سوچے سمجھے جنونی انداز سے اندھا دندھ صنعتوں اور کاروبار کو قومی ملکیت میں لینے سے ملک کو سنگین اقتصادی بحران سے دوچار ہونا پڑا تھا اور بھٹو کے دور کے خاتمہ کے بعد فوجی حکمران جنرل ضیاءنے اس تباہی سے نجات کے لئے نج کاری کا پروگرام مرتب کرنے کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا تھالیکن اس وقت تک پاکستان میں بڑے پیمانہ پر نج کاری کا عمل شروع نہیں ہوسکا۔
دوسری وجہ نج کاری کے پروگرام کی یہ تھی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈIMF نے مالی خسارہ کے مسلہ کے حل کے لئے قرضہ دینے کی سب سے بڑی شرط یہ عاید کی تھی کہ ملک کی صنعتوں کی نج کاری کی جائے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے دروازے کھولے جائیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو نے 1988میں بر سر اقتدار آنے کے بعد اپنے والد کی صنعتوں اور تجارتی اداروں کو قومیانے کے پالیسی کے بر عکس نج کاری کی پالیسی اختیار کی۔ گو بے نظیر بھٹو کی حکومت نے بنکوں، ، شہری ہوابازی۔ اور گیس اور تیل کی صنعتوں کو نجی ملکیت میں دینے کا پروگرام تیار کیا تھا لیکن بہت جلد برطرفی کی وجہ سے اس پروگرام پر عمل نہ ہو سکا بس پی آئی اے کے صرف دس فی حصص کی نج کاری ہوسکی۔
بڑے پیمانہ پر نج کاری کا پروگرام نواز شریف کے دور میں91 ءمیں شروع ہوا ۔ اس وقت نج کاری کمیشن نے یہ فیصلہ کیا کہ نج کاری سے حاصل ہونے والی 90 فی صد آمدنی ملک پر قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے خرچ کی جائے گی اور دس فی صد رقم ملک میں غربت کے خاتمہ کے لئے خرچ کی جائے گی۔ نج کاری کمیشن کی طرف سے یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ نج کاری سے صنعتی کارگردگی میں اضافہ ہوگا ، صنعتوں میں سرمایہ کاری بڑھے گی اور اس کے نتیجہ میں روزگار کو فروغ حاصل ہوگا ۔ اس دوران نہایت سستے داموں دو بنکوں کی نج کاری ہوئی اور 47 فی صد صنعتیں نجی ملکیت میں دے دی گئیں۔
فوجی حکمران مشرف کے دور میںشوکت عزیز کی جنونی نج کاری سے ایسا لگتا تھا کہ بڑی بڑی کمپنیوں اور صنعتی ادارے مگر مچھوں کی طرح پورے ملک کی صنعتوں اور کاروبار کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ شوکت عزیز کے تباہ کن دور میں ملک کی 90فی صد صنعتیں ، گنے چنے بڑے نجی اداروں کے حوالے کردی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قومی دولت چند برسوں میں چند گنے چنے افراد اور صنعتی گروپس کی ملکیت میں چلی گئی ۔
پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں 2009میں نج کاری کے پروگرام کا اعلان کیا گیا تھاجس کے تحت قادر پور گیس فیلڈ۔ الیکڑک سپلائی کی کمپنیوں، بجلی کے کارخانوں ، انشورنس کمپنیوں ، ریلوے اور پوسٹ آفس کی نج کاری کا اعلان کیا گیا تھا لیکن سخت مخالفت کی وجہ سے یہ پروگرام ترک کرنا پڑاصرف ہزارہ فاسفیٹ فرٹیلایزر کی نج کاری کی گئی۔
اب نواز شریف کے موجودہ دور میں IMFسے تین سال کے لئے 6.6ارب ڈالر کے قرضہ کے حصول کے لئے بین الاقوامی فنڈ سے یہ طے ہوا ہے کہ اس قرضہ کے عوض ملک کی اہم صنعتون کی نج کاری کی جائے گی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے راستے کھول دیے جائیں گے اس مقصد کے لئے نج کاری کا اتناہمہ گیر منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ خود IMFنے اسے بہت وسیع قرار دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت اگلے عام انتخابات سے پہلے ملک کی تمام بڑی صنعتوں اور کاروباری اداروں کو نجی ملکیت میں دینے کا پروگرام مکمل کرنا چاہتی ہے۔ پی آی اے کی بھی مجوزہ نج کاری اسی پروگرام کا حصہ ہے جس کے لئے حکومت دیوانگی کی حدوں کو چھورہی ہے۔ نہ جانے حکومت کے نج کاری کے مشیروں کو اس کا احساس کیوں نہیں ہے کہ پی آی اے کا مسئلہ ملکیت کا نہیں ہے بلکہ در حقیقت مسئلہ اس کے انتظام کا ہے ۔ اب آخر ایمریٹس ، سنگا پور ایر لاینز، ملایشین ایرلاینز اور کئی دوسری ایرلاینز بہتر انتظامی کارکردگی کی بناءپر کامیابی کے ساتھ منافع بخش انداز سے چل رہی ہیںجب کہ یہ ایر لاینز قومی ملکیت میںہیں۔
1988سے لے کر 2008ءکے دوران محض نج کاری برائے نج کاری اور IMFکی شرایط پوری کرنے کے لئے ہوئی ہے جو تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ قومی ملکیت کی صنعتوں کے مقابلہ میں نجی صنعتوں کی کارکردگی عمد ا ہوتی ہے ۔ پاکستان میں یہ مفروضہ واضح طور پر غلط ثابت ہوا ہے ۔ ایشیا ءترقیاتی بنک کے سروے کے مطابق 79کارخانوں کی نج کاری کے بعد ان میں سے صرف 16کارخانے جیسے تیسے چل رہے تھے اور بیشتر کارخانے نج کاری کے بعد یا تو ٹھپ پڑ گے یا انہیں اونے پونے بیچ دیا گیا۔
90ءمیں نواز شریف کی دو حکومتوں کے دور میں نج کاری کے نتیجہ میں واجب الادا قرضے ، مجموعی قومی پیداوار سے 104فی صد سے بھی تجاوز کرگئے تھے یوں نج کاری کے ذریعہ خسارہ اور قومی قرضوںمیں تخفیف کی جو توقع تھی وہ پوی نہ ہوسکی۔ کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نج کاری کس قدر تباہ کن ثابت ہوئی ۔ PTCLکو کس طرح اونے پونے فروخت کیا گیا اور بنکوں کی نج کاری میں کتنے گھپلے ہوئے۔
۸۸۹۱ سے اب تک نج کاری ۳مقاصد کے تحت کی گئی ہے ۔ معیشت کو فروغ دیا جائے، خسارہ اور قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے اور غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ اب تک نج کاری ان تینوں مقاصد میں ناکام رہی ہے۔ قومی ملکیت کی نج کاری سے مالی خسارہ اور قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں قطعی کوئی مدد نہیں ملی اور نہ اس اقدام سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور نتیجہ یہ کہ روزگار میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ غرض ۸۸ ءسے اب تک نج کاری سے ملک میں اقتصادیءترقی کے بجائے ابتری ہوئی ہے۔ مزدوروں اور حکومت کے درمیان معرکہ آرائی بھڑکی ہے اور سیاسی کشیدگی میں الگ اضافہ ہوا ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments