افغانستان میں طالبان آئے تو پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے؟


افغانستان میں طالبان جس رفتار سے پیش قدمی کر رہے ہیں کابل تک پہنچنا ان کے لئے مشکل نہیں، دوسری جانب مذاکرات کی بساط بھی بچھائی گئی ہے، علاقائی طاقتیں اور افغانستان کے ہمسائے بھی اپنے تئیں افغانستان کا پرامن حل نکالنے کے لئے کوشاں ہیں، افغانستان کی صورتحال سے پاکستان بھی اضطراب میں ہے، طالبان نے بلوچستان سے متصل پاکستان، افغانستان سرحد پر قبضہ کر لیا ہے، طالبان نے یہ علاقہ بیس سال بعد اپنے کنٹرول میں لیا ہے، کلیدی مقام پر طالبان نے افغانستان کا جھنڈا ہٹا کر اپنا پرچم لہرا دیا ہے، پاکستان نے فوری طور پر چمن بارڈر بند کر دیا ہے، کراسنگ پوائنٹس سیل کر دیے ہیں جہاں سے آنے جانے کی اجازت تھی وہاں بھی فوجی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں

افغان طالبان کی طرف سے یہ ایک اہم پیش رفت ہے، طالبان نے بڑے شہروں پر نہ حملے کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے، اسی لئے چھوٹے شہروں اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، طالبان بڑے شہروں کو جانے والے روٹس اور شاہراؤں پر قبضہ کر رہے ہیں وہ شاید ان شہروں کی ناکہ بندی چاہتے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق تاجکستان اور کابل کی مین شاہراہ پر طالبان نے قبضہ کر کے ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا ہے، اب چمن سے جانے والی شاہراہ پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اگر طالبان طورخم پر قبضہ کرتے ہیں تو وہاں بھی حالات مشکل ہوجائیں گے، افغانستان میں پرامن سیاسی حل نہ نکلا تو حالات مزید بگڑ جائیں، خانہ جنگی کی صورت میں لاکھوں لوگ مریں گے، لاکھوں خاندان نقل مکانی کریں گے، افغانستان میں پہلے بھی ایسا ہوا تھا کہ حکومتی کمانڈروں نے الگ الگ پوسٹیں بنالی تھیں، اپنے علاقے تقسیم کر لیے تھے، اسی تقسیم نے امریکا کی افغانستان آمد کو بھی جواز فراہم کیا تھا۔ افغانستان میں اگر طالبان کی حکومت آئے گی تو پاکستان پر کیا اثرات آئیں گے؟

جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی افغانستان کے لئے بہت اہمیت ہے، افغانستان کا دنیا سے رابطہ پاکستان کے ذریعے ممکن ہے، گرم پانیوں تک رسائی صرف پاکستان کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے، صرف افغانستان ہی نہیں، سینٹرل ایشیائی ریاستیں بھی پاکستان کے ذریعے دنیا سے جڑ سکتی ہیں، پاکستان اور افغانستان کی ساڑھے 22 سو کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے، جسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں، پاکستان نے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے نوے فیصد علاقے میں باڑ نصب کردی ہے، پاک ایران سرحد پر بھی تیزی سے باڑ لگائی جا رہی ہے، بارڈر پر سینکڑوں پوسٹس قائم کی گئی ہیں۔

جدید بائیومیٹرک سسٹم کی تنصیب بھی بارڈر پر کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں بدامنی ہوگی تو اس کا سب سے برا اثر پاکستان پر پڑے گا، افغانستان میں بدامنی اور تشدد سے پاکستان میں کالعدم تنظیموں کی باقیات اور سلیپرز سیل دوبارہ فعال ہوسکتے ہیں، دوسری جانب بلوچستان میں بھی تھریٹ کو تقویت مل سکتی ہے، مختلف دہشتگرد گروپ جو بھارتی ایجنسیز کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں ان کی مدد سے آپس میں اتحاد کر سکتے ہیں۔

کوہستان میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے کے تانے بانے بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال سے ملتے ہیں، بھارت اور پاکستان، چین دشمن قوتیں بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے لئے فعال ہو چکی ہیں، اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کا تعلق بھی ان سے ہو سکتا ہے، افغانستان کے اپنے سفارتی عملے کو بلانا اسی صورتحال کا ایک اثر ہے۔ پاکستان کو سفارتی تعلقات میں دشواری پیش آئے گی، ہو سکتا ہے کہ اب طالبان کا حمایت یافتہ سفارتی عملہ تعینات ہو۔

جہاں سیکیورٹی ایک بڑا چیلنج ہے وہاں معاشی اثرات بھی پڑیں گے، اگر پرامن طریقے سے افغان حکومت تشکیل پاتی ہے تو پاکستان پر اس کے مثبت معاشی اثرات پڑیں گے، تاپی گیس پائپ لائن مکمل ہوگی، ازبکستان سے پاکستان براستہ افغانستان زمینی راستہ قائم ہوگا، پاکستان کو افغانستان میں سرمایہ کاری کا موقع ملے گا، سی پیک منصوبوں کو سینٹرل ایشیا تک رسائی ملے گی، اگر افغانستان کا پرامن سیاسی حل نہیں نکلتا ہے تو لاکھوں مہاجرین پاکستان کی طرف آئیں گے جن کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

طالبان نے مذاکرات میں کابل انتظامیہ کے پاس تین مطالبات رکھے ہیں، وہ اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں یہ قیدی کوئی پانچ سے سات ہزار ہیں، دوسرا وہ اپنے لیڈرز پر لگا دہشتگردی کا لیبل ختم کرانا چاہتے ہیں جو اقوام متحدہ ہی ختم کر سکتا ہے، تیسرا مطالبہ افغانستان میں اسلامی نظام کا ہے، طالبان اسلامی نظام پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، افغانستان میں اسلامی حکومت آتی ہے تو پاکستان میں بھی اسلامائزیشن بڑھے گی، اس سے مذہبی جماعتوں کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا، مذہبی جماعتوں کا سیاسی ووٹ بڑے گا، جیسا کے ہم دیکھ چکے ہیں کہ 2001 میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، طالبان کے حق میں پاکستان میں ہمدردی بڑھی، مذہبی جماعتوں نے جگہ جگہ اسے کیش کرایا، ایک مہم کو پاکستان کے گلی محلوں تک چلایا، 2002 میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو ایم ایم اے پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی، افغانستان سے متصل صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں حکومت بھی بنائی، اب بھی وہی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے، ابھی سے پشاور اور کوئٹہ میں طالبان کے سفید پرچم دیکھے گئے، طالبان کے حق میں ریلیاں بھی ہوئیں۔ سیاسی اور سماجی اثرات خارج از امکان نہیں، افغانستان میں طالبان کی ممکنہ حکومت پاکستان میں 2023 میں ہونے والے انتخابات میں رنگ دکھائے گی۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس سال میں دہشتگردی کے خلاف پاکستان نے 86 ہزار سے زائد اپنے بیٹے قربان کیے۔ مجموعی طور پر 152 سے 153 بلین ڈالرز کا مالی نقصان اٹھایا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں آپریشنز کیے، چھوٹے بڑے آپریشنز میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ دہشتگردوں سے پاک کیا، پورے پاکستان میں نو گو ایریاز ختم کر دیے، اس دوران 18 ہزار سے زائد دہشتگرد مارے گئے، ساڑھے 4 سو ٹن سے زائد بارودی مواد تحویل میں لیا گیا، آج کا پاکستان نوے کی دہائی والا پاکستان نہیں اور آج کے طالبان بھی نوے کی دہائی والے نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت بنائے یا کوئی اور پاکستان ضرور متاثر ہوگا۔ دعا یہی کرنی چاہیے کہ مثبت اثرات ہی پڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments