بصارت زیادہ اہم ہے یا بصیرت؟


یہ عنوان تجویز کرنے کے بعد، میں خود، جی بھر کے کنفیوز ہوں کہ واقعی اگر ان دونوں کی ترتیب اور اہمیت مقرر کی جائے تو کس کو کہاں رکھا جائے گا (یا رکھا جانا چاہیے)۔ منظر کو دیکھنے، سمجھنے اور جانچنے کے لئے، عملاً بصارت درکار ہے یا بصیرت؟ کبھی یوں لگتا ہے، جیسے بصارت بنا کیا منظر اور کیا اس منظر کی تشخیص، پھر یہ خیال آتا ہے کہ بصیرت سے بالا ہو کر بصارت جو دکھائے، اس دھندلکے کے عقب میں ڈھکے سوالوں کے جواب کون ڈھونڈے گا۔

ان کی حیثیت سمجھنے کے لئے، شاید پہلے ہمیں ان دونوں خصوصیات کا کردار اور ان کی ضرورت کو جاننا ہوگا۔ بصارت اور بصیرت کی آسان اور سادہ تعریف میں کہا جاسکتا ہے کہ جو دکھائی دیتا ہے، وہ بصارت ہے اور جو سجھائی دیتا ہے وہ بصیرت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر دکھائی دینے والا منظر ہی محض دیکھنا مقصود ہوتا تو پھر یہ بصیرت کی حاجت کیوں ہونے لگی۔ جو دیکھنا ہے، بصارت کی اعانت میں دیکھ لیا جائے اور اس کے مطابق راہ لی جائے، اللہ اللہ خیر صلا! مگر شاید ایسا عملی طور پر ہے نہیں، وگرنہ بصارت کے ساتھ ساتھ، زبان و ادب، ( اور تاریخ و صحافت میں ) اتنا ہی ذکر بصیرت کا کیوں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ شب و روز، ہمارے آگے برپا ہونے والے رنگارنگ مناظر میں پوشیدہ، سیاہ و سفید، کیوں کر دیکھے ( اور جانچے ) جا سکتے ہیں اور کیوں کر ان کی حیثیت یا حقیقت تک پہنچنے کی دانش مندانہ کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہاں، پھر وہی سوال، کہ اس جستجو کی کامیابی کے لئے، سیڑھی کا پہلا پائدان بصارت ہو کہ بصیرت، ( یا معاملہ اس کے برعکس ہو ) !

بہ ظاہر، بصارت بنا، کچھ دکھائی دینا عجب لگتا ہے مگر بعض ہوش مندوں کا کہنا ہے کہ بصارت کے ساتھ بھی، سب کو سب دکھائی دے، یہ لازم نہیں۔ اس لئے، ان کے خیال میں، بصیرت ہی معاملہ فہمی کی بنیادی شرط ہے۔ بصیرت، ذہین شاطر کی طرح بساط کے ہر خانے اور اہل خانہ کے تیور کو جاننے کا ہنر رکھتی ہے، جبکہ بصارت کسی بھی کھیل کی محض چشم دید گواہی پر، قناعت کی عادی ہوتی ہے۔ گویا کیا دکھائی دیتا ہے، یہ بصارت کا دائرہ کار ہے اور جو دکھائی دیتا ہے، وہ ایسا کیوں دکھائی دیتا ہے، اس کے لئے، بصیرت جواب دہ ہے۔

بصارت کے اختیار میں منظر کی نشان دہی تو ہو سکتی ہے مگر منظر کی ترجمانی نہیں کہ اس کردار کے لئے، کئی نادیدہ تہوں اور پوشیدہ گتھیوں تک رسائی ضروری ہے اور اس گہرائی تک پہنچنے کے لئے، اور کوئی مہارت، مطلوب (اور میسر) ہو نہ ہو، بہت سے نشیب و فراز سے الجھنے کا ہنر، لازمی طور پر دسترس میں ہو۔ یہیں سے شاید بصیرت کی سرحد شروع ہوتی ہے جس کو عبور کیے بغیر، منظر کے خد و خال کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کا امکان ظاہر نہیں ہوتا۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ بصیرت کی کسوٹی کے بغیر کوئی پرکھ، شاید منطقی، موثر اور مقبول نہ ہو۔

اب اگر اسے طے سمجھ لیا جائے کہ بصارت، بنا، بصیرت نتیجہ خیز نہیں، تو دانش مندی کا یہ مطالبہ حق بہ جانب محسوس ہوتا ہے کہ صرف دیکھے پر، فیصلوں کی فصیل نہ کھڑی کی جائے بلکہ بصیرت کی چھلنی سے گزار کر کسی پیش رفت کا ارادہ باندھا جائے ( کہ مبادا، تعمیر کا سراب، (جلد یا بہ دیر، آہستگی یا تیزی سے ) تخریب کا پہاڑ نہ بن جائے۔

معاملہ فہمی، درحقیقت موجود یا آنے والی صورت حال کی غیرجانبدارانہ تشخیص اور اس تشخیص کے مطابق ہوش مندانہ اور حقیقت پسندانہ تدبیر پر عمل درآمد کا اظہار ہے۔ یہاں بصیرت کی صلاح سے گریز کرتے ہوئے، بصارت کی گواہی پر ذاتی، گروہی یا من پسند، جھکاؤ، پستی کی کسی بھی سطح سے دوچار کر سکتا ہے اور اس ناقابل تلافی نقصان کا پھیلاؤ، پھر کسی ( بھی) با اختیار کے اختیار سے بے قابو ہو کر، معاملے کی نوعیت اور حالات سے جنم لینے والے عوامل کے حوالے ہو کر خود اپنی راہ متعین کرتا ہے۔

لہٰذا منصفانہ پیش بندی یہی ہے کہ اپنے مخصوص نصب العین سے قطع نظر، بصارت پر، بصیرت کی تائید کے ساتھ، پیش قدمی کی جائے۔ یہ وہ صورت ہے جو بہتر امکانات کے لئے جگہ بناتی ہے اور نقصانات کے لئے جگہ تنگ کر دیتی ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ بصیرت کی پذیرائی اس لئے لازم ہے کہ بصارت کی صحیح اور منطقی توجیح، اسی کے توسط سے حاصل ہوتی ہے جو، دانش مندوں کے مطابق، کسی بھی سطح پر، کسی بھی مسئلے کے بہتر حل کی سمت، پہلا قدم تصور کیا جاتا ہے (اور کیا جانا چاہیے)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments