بارشیں وفاقی دارالحکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی بہا لے گئیں


صبح اٹھا تو نیوز گروپ میں سیلابی ریلے کی گاڑیوں کو بہا کر لے جاتے ہوئے کی ویڈیو دیکھ کر پہلے پہل تو یہ سمجھا کہ شاید یہ ویڈیوز جاپان یا انڈونیشیا کے کسی شہر کی ہیں جہاں خدانخواستہ ایک بار پھر سونامی آ گئی ہے۔ مگر تصدیق کی تو پتہ چلا کہ یہ ویڈیو تو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز اور راولپنڈی کے نالہ لئی کی ہیں۔ اب میرے لئے یہ مناظر کافی حیران اور پریشان کن تھے کہ اسلام آباد تو بہترین پلاننگ کے ذریعے بننے والا شہر ہے اور وہاں تو جتنی مرضی بارش ہو جائے نکاسی بھی خود بخود ہوجاتی ہے اور سب سے بڑی بات وہاں تو ڈی سی صاحب گلی میں پڑی ہوئی مٹی کی ٹرالی کی تصویریں ڈال کر راستہ روکنے جیسی شکایات پر بھی نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر اس گلی سے مٹی ہٹوا دیتے ہیں اور جس کی حرکت ہو اس کو جرمانہ بھی الگ کیا جاتا ہے۔ تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہاں بارشی پانی جمع ہو؟ اگر ہو بھی جائے تو کیسے ہو سکتا کہ انتظامیہ نے فوری نکاسی نہ کی ہو۔

مگر نہیں کارکردگی تو بس ٹویٹر پر ہی دکھتی ہے اور بکتی ہے، وہی ہوا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے عین مطابق بادل خوب برسے۔ جس کے بعد نہ صرف ڈرینج سسٹم اور پاکستان کی سب سے قابل ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کو ملیا میٹ کرتی ہوئے بپھرے ہوئے بارشی پانی نے اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون کی گلیوں میں سونامی کا منظر دکھائے۔ مرکزی شاہرائیں ہو یا گلیاں ہر طرف بس بہتی ہوئی گاڑیوں، بہتے ہوئے سامان کے ڈھیر دیکھنے کو ملے۔

ٹویٹر پر سرگرم انتظامیہ کو بھی ٹویٹر ہی سے اس حوالے سے ٹرینڈز دیکھنے کے بعد پتہ چلا۔ ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ دعوی کیا جاتا رہا کہ اسلام آباد میں بیس سال کے بعد اتنا شدید بارش اور کلاؤڈ برسٹ (بادل پھٹنے ) کی وجہ سے 330 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی ہے جس نے ڈرینج سسٹم پر بوجھ ڈالا۔ سی ڈی اے اور ڈی سی صاحب کے مطابق چونکہ ای الیون نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے زیرانتظام ہے اور ان کے پاس پانی کی نکاسی کے لئے بنیادی مشینری ہی موجود نہیں تھی، اگر سی ڈی اے نہ پہنچتی تو خدانخواستہ نقصانات زیادہ ہوتے۔

مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تو ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے کی جانب سے کلاؤڈ برسٹ کے پیچھے چھپنے کی تھیوری کو محکمہ موسمیات نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے من گھڑت کہانی قرار دے دیا۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کی گئے اعداد و شمار کے مطابق نہ ہی اسلام آباد میں 330 ملی میٹر بارش ہوئی ہے نہ ہی بادل پھٹے، جو بارش ہوئی ہے وہ مون سون سلسلے کی تھی اور اس میں بھی زیادہ سے زیادہ بارش جو ریکارڈ ہوئی وہ سید پور میں 123 ملی میٹر تھی۔

اب دیکھا جائے تو سید پور کا ای الیون سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ہے، جہاں تک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے پاس مشینری نہ ہونے کی توجیح کی ہے تو بھئی سی ڈی اے کا کام کیا ہے؟ کھوکھے ہٹانے یا پھر غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنوانا؟ نہیں سی ڈی اے کا کام ہوتا ہے اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے پیروی کروانا اور سی ڈی اے کے ہی قوانین موجود ہے کہ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کو اس وقت این او سی جاری نہیں کیا جاسکتا جب تک ان کے پاس بارشوں سے نمٹنے اور ڈرینج کے لئے پلان اور مشینری نہ ہو تو اس سوسائٹی کو این او سی کس نے جاری کیا؟

دوسری بات اگر محکمہ موسمیات کی جانب سے پیش گوئی کی گئی تھی تو ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے نے کیا ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کوئی اجلاس بلایا؟ کیا کوئی ہدایت نامہ جاری کیا گیا جس میں بنیادی لوازمات پورے کرنے پر زور دیا جاتا؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، ہوتا بھی کیسے ضلعی انتظامیہ کے افسران کو ٹویٹر شکایات سے نمٹنے کی فرصت نہیں ہے کہ وہ ایسی کسی میٹنگ کو بلانے یا ایسی کسی پلاننگ کا سوچیں بھی، سی ڈی اے کا تو بیڑا ہی غرق ہے اس کی کارکردگی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کیسوں میں دیے جانے والے ریمارکس سے پتہ چل ہی جاتی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ڈی سی صاحب اور سی ڈی اے کا عملہ جب پہنچا تو یہ ریلہ گزر چکا تھا اس کے بعد جو ریلیف ورک کیا گیا وہ صرف اور صرف گلیوں اور شاہراؤں سے کیچڑ اور ملبہ ہٹانے کا تھا۔ وزیراعظم صاحب سے اپیل ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے باقاعدہ پلاننگ کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments