انسانیت کا منصب انسانوں کی فلاح ہے


انسان کے عقل و شعور میں ترقی اور ارتقاء کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے، انسان کی دور قدیم سے اب تک کی تاریخ کو اور اس کی طرف سے بدلتے ہوئے نظام ہائے حکومت اور قوانین کو سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانی مسلسل ارتقاء پذیر ہوتے علم و شعور کا بنیادی مقصد ہی اس آئیڈیل نظام تک پہنچنا ہے، جس میں انسان کے لیے قابل حل مسائل کو آسان، اور زندگی اور اس کی بنیادی ضروریات اور لوازمات کو بلا تخصیص ہر انسان کی دسترس میں لے آیا جا سکے۔

اس راہ میں چند قدیمی اور دیرینہ تعصبات حائل ہیں جن میں وطنیت، قومیت، مذہب، نفرت و تعصب، نسلی برتری کا زعم جیسے عوامل شامل ہیں جو ایک انسان یا نسل یا ملک کو دوسرے انسان، نسل یا ملک کو حقیر سمجھنے اور اس کا استحصال و ظلم کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ پوری دنیا کے انسان بنیادی طور پر عالم انسانیت کا حصہ ہیں، اور ان کے دکھ تکالیف، اور ضروریات بھی بالکل یکساں ہیں لیکن ہم نے ان مذکورہ بالا تعصبات اور نفرتوں کی بناء پر عالم انسانیت کو، اور اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ کرہ ارض کو لکیروں میں مذہبی قومی اور نسلی تعصبات کی بنا پر سرحدوں کی لکیریں لگا کر پابند و محسور کر دیا ہے، گویا اس کرہ ارض پر انسانوں نے سرحدوں کی شکل میں اپنے اپنے یا دوسروں کے لیے علیحدہ علیحدہ ممالک کی شکل میں قید خانے تعمیر کر لیے ہیں جس میں کچھ تو بہت خوشحال اور معیاری زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اور کچھ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

یہاں میں بالکل صاف دل سے ہر باضمیر انسان سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا نعوذ باللہ دنیا میں اللہ نے انسانوں کی اکثریت کو ذلیل ہونے اور ناجائز ظلم و ستم سہتے ہوئے تاریک راہوں میں مارے جانے کے مقصد سے پیدا کیا ہے؟ اللہ نے انسان کو اس معلوم کائنات میں بہترین شکل و صورت، عقل شعور کی صلاحیت کے تحفے دے کر دنیا میں پیدا کیا، دنیا میں انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کیا، یعنی با الفاظ دیگر اپنی طرف سے مہتمم مقرر کیا، اور آخرت میں اگر کچھ حساب یا جواب دہی ہونی ہے تو وہ ان ہی ذمہ داریوں اور ودیعت کی گئی صلاحیتوں کے بارے میں ہو گی دنیا میں کسی مجبور انسان کی مجبوری بھوک، تکلیف اور بیماری کا علاج دراصل اللہ ہی کے دیے ہوئے مینڈیٹ اور ذمہ داری کے ساتھ انسان نے ہی کرنا ہوتا ہے، اب ایک امیر انسان کو ہم اس کی دولت یا رتبے کی وجہ سے بہترین علاج کی سہولتیں دیں اور غریب کو یہ کہیں کہ بیماری اور شفاء من جانب اللہ ہوتی ہے، وہ چاہے گا تو تم ٹھیک ہو جاو گے، کسی بھوکے کو کہیں کہ تمہاری ذمہ داری نظام کے چلانے والوں پر نہیں، بلکہ اللہ روزی رسان ہے اسی نے تم کو رزق دینا ہے لہذا اسی سے تقاضا کرو ہماری طرف نہ دیکھو۔

اب سچ سچ بتائیں ایسے محروم انسان کے خدا کے بارے میں کیا جذبات پیدا ہوں گے۔ ہمارے دین کے مطابق بھی یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے علت و معلول یعنی کاز اینڈ ایفیکٹ کے اصول کے تحت بنائی ہے، اور اس اصول کی خلاف ورزی وہ خود بھی نہیں کرتا، اسی وجہ سے طویل عرصہ سے معجزات کا ظہور منقطع ہے۔ لیکن یہاں اپنی طرف سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے، کہ اگر کوئی انسان اللہ کو اس لیے مانتا ہے، کہ دنیا میں اللہ کی طرف سے اللہ کی ہی پیدا کی گئی ہر طرح کی مخلوق کی زندگیوں میں آسانی اور بہتری پیدا کرنے کی خود کو اللہ کی طرف سے دی گئے حکم اور ودیعت کردہ صلاحیتوں اور وسائل کے بہترین ممکنہ استعمال سے دور کرنے کی نیت رکھے اور کوشش کرے، اس خوبصورت اور وسائل سے بھرپور کرہ ارض کو اس کے باسیوں کے لیے ممکنہ حد تک باہمی انسانی پیار و محبت سے بھر پور ایک انسانی برادری کے احساس سے معمور خوبصورت اور سب کے لیے قابل رہائش اور پرامن دنیا بنانے کی کوشش کرے، تو ایسے اللہ پر میں ہزار بار دل و جان سے ایمان رکھتا ہوں، لیکن اگر کوئی مذہب کو تقسیم، قتل و غارت، انسانوں سے نفرت اور تباہی و بربادی کے مقصد سے اختیار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی اللہ کا حکم ہے تو معذرت کے ساتھ میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔

کسی بھی انسان کو اپنا عقیدہ اپنے ضمیر کے مطابق اختیار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے، بشرطیکہ اس کے عقیدے سے کسی دوسرے کو ضرر یا تکلیف نہ پہنچے، عقیدے کی آزمائش روز محشر میں اللہ تعالیٰ کی ذات خود بہترین انداز میں انصاف کے ساتھ کر لے گی اور ہمیں الہامی کتب میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہاں میزان عدل، سزا و جزاء کا بہترین نظام ہے، جہاں کسی کے ساتھ ذرا سی بھی زیادتی نہیں کی جائے گی، اور جو جو کچھ انسان کے اعمال اور نیتوں کا حصہ ہو گا، اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا۔

لہذا کسی کے عقیدے کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے یا اس کو مسترد کرنے کا حق ہمیں اللہ نے نہیں دیا اور جب بھی ہم ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فساد فی الارض کا باعث بنتے ہیں۔ لہذا بحیثیت انسان ہمیں اپنی سوچ کے محور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم نفرت اور تعصب سے پاک نظر سے دنیا کو دیکھیں گے تو ہمیں یہ کرہ ارض موجود انسانی اور حیوانی تعداد کی ضرورت سے بہت زیادہ مقدار میں موجود وسائل سے بھری ہوئی نظر آئے گی، اور ساتھ ہی اب تو ہمارے پاس جدید علم و فن اور سائنس اور ٹیکنالوجی کا عظیم مشترکہ انسانی ورثہ بھی موجود ہے جو ہم نے ہزاروں سال کے ارتقاء اور تجربات و مشاہدات سے حاصل کیا ہے، اس ورثے کی مدد اور کرہ ارض کے وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہم انسانی زندگی کے اس مختصر دورانیے کو بہتر آسان اور خوشحال بنا کر بنی نوع انسان کو اس شرف انسانیت سے ہمکنار کر سکتے ہیں جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا اللہ کا مقصد تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments