فنون لطیفہ کے لئے افلاطون اور موجودہ ڈکٹیٹرز میں فرق


پاکستان کا حکومتی نظام ہر دور میں کسی monarch کے زیر احسان، ڈکٹیٹر کے نافذ کردہ جائز اور ناجائز اصولوں پہ عمل پیرا نیم مردہ ڈیموکریسی کا نظام ہے جہاں ہر انسان کو انفرادی اظہار رائے کا اعتماد دے کر کس خوش اسلوبی سے بہلایا جا رہا ہے!

ادبی حلقوں میں اگر Dark Comedy پر مشتمل کوئی ضخیم تصنیف درکار ہو تو پاکستانی میں جمہوریت کی تاریخ کو جوں کا توں رقم کر دیا جائے لیکن یہاں ایسا کرے کون جہاں آزادیٔ رائے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں نہ ہونا اینٹی سٹیٹ سمجھا جاتا ہے۔ حقائق کتابوں میں درج ہیں جنھیں بطور حوالہ پیش کر کے کوئی مناظرانہ روش اختیار کرنا مقصود نہیں لیکن ایک متمدن معاشرے میں جسے جمہوریت کہا جا رہا ہے اتنی پابندیاں کہ عام انسان اپنے اداروں پہ تنقید بھی نہیں کر سکتا، یہاں مہد سے لحد تک محض وہی سوچنے کی اجازت ہے جو آپ سے چاہا جاتا ہے کہ سوچا جائے۔ اس صورتحال میں چند شعرا اور صحافی حضرات کو علم بغاوت بلند کرنے پہ سزائیں دینا آج سابق ارباب بست و کشاد کے لئے دست تاسف ملنا کی ایک وجہ بن گیا ہے۔

احب الجہاد الی اللہ کلمۃ حقٍ تقال لامامٍ جائزٍ
اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جہاد ظالم بادشاہ کو حق بات کہنا ہے۔
(صحیح الجامع، رقم: 166)

مکالمات افلاطون کا مطالعہ کرتے ہوئے ہونے والی ندامت نے اس خامہ فرسائی پہ اکسایا کہ ہم عصر حاضر یا مابعد جدیدیت میں بھی فنون لطیفہ کے لئے کشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے اور شعرا، آرٹسٹ یا صحافیوں کے لئے راہیں تنگ رکھتے ہیں لیکن قبل مسیح میں ایک شخص شعرا کے خلاف ہونے کے باوجود ان کے مقام سے انکار نہیں کر رہا تھا، وہ مثالی ریاست میں شعرا کو ”پھولوں کے ہار“ پہنا کر شہر بدر کر دینا چاہتا تھا۔ شعرا کے متعلق افلاطون کا فلاکت زدہ نظریہ بیک وقت فطانت سے خالی بھی نہیں کیونکہ اس کی نظر میں شاعر کا مقام ایک ”روشنی اور پرواز کرنے والی پاک چیز“ کا ہے جس پر شاعری کی دیوی Calliope کا سایہ ہوتا ہے اس لئے اسے عالم وجد سے نکلنے کی مہلت نہیں ملتی۔

بطور ‎عینیت پسند، افلاطون شاعر کو ”نقل کی نقل“ کرنے والا مجنون کہتا تھا یعنی ایک ”قلم“ خدا کے خیال میں اصل قلم ہے، قلم بنانے والا اس قلم کی نقل بناتا ہے اور شاعر اور آرٹسٹ اسے دیکھ کر کچھ تخلیق کرتے ہیں یعنی نقل کی نقل پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا وہ حقیقت سے دو درجہ دور رہتے ہیں۔ بہ ہرحال وہ منافقانہ طرز کا فلسفی تھا جسے اپنی مثالی ریاست میں انہی شعرا سے فاتحین کے لئے کلام بھی لکھوانے تھے جسے مجوزان و داعیان قانون اور ماہر تعلیم کی نظر سے گزرنے بعد منظر عام پر آنا تھا۔

آج کے ارباب بست و کشاد اور افلاطون میں بنیادی فرق یہی ہے کہ وہ ‎عینیت پسند تھا اور شعرا کو اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ خداؤں کی طرف کوئی شر منسوب کریں اور اگر کریں بھی تو انھیں عوام الناس حق میں بہتر ثابت کریں۔ دوسری طرف من و عن یہی نظریہ پاکستان میں مروج ہے مگر خدا کے لئے نہیں بلکہ مقتدرہ کے لئے۔ آج کے تناظر میں آپ کو شاعر کی زباں بندی کے لئے کوئی وجہ اس کے سوا نظر نہیں آتی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کام سے نالاں ہیں؟

”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے“ جیسی رسم میں اکڑی ہوئی پگڑیاں پہن کر نکلے ہوئے ہیں۔ بود و نابود کے خود سے نکلے ہوئے صحافیوں کی جستجو بھی گھمسان میں لڑی ہوئی جنگ سے کسی صورت کم نہیں، اور دوسرے فنون لطیفہ کے آرٹسٹ جن کی نظر میں کوئی سرحد نہیں ہوتی وہ بھی اس ستارہ برگشتہ کے وقت میں اپنی جگہ مجبور ضرور رہے مگر کوہ گراں کی طرح ڈٹے رہے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ”نوش بے نیش حاصل نمی شود“ (شہد ڈنک کھائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا) کا شعور ہے، اور یہی چیز انھیں بے سکون رکھتی ہے :

سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لئے
کہ مجھ حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ
اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
فرازؔ

ہم عزلت نشیں شاعر معاشرے کی رمز جانتے ہیں لہٰذا انقلاب نہ اٹھا بھی پائے تو نوحہ کناں ضرور رہیں گے کیونکہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا یہی تقاضا ہے اپنے گرد و نواح کا علم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments