پاکستان خواتین کے لیے محفوظ ملک نہیں


ہمارا سماج وہ واحد کمیونٹی ہے جس میں نر اور مادہ برابری کی سطح پہ نہیں ہیں۔ یہاں مرد ایک ایسا کھلا جانور ہے جو مرضی سے جی سکتا ہے، اپنی مرضی سے تن ڈھانپ سکتا ہے یا چڈی پہنے گلی میں گھوم سکتا ہے، اونچی آواز میں چیخ سکتا ہے، خود کو حاکم سمجھتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اسی کا اختیار ہے کہ وہ عورت کو پابند کرے کہ اسے کیا پہننا، کھانا، بات کرنا، کہاں آنا جانا، کام کرنا، گھر میں کیسے رہنا ہے کن لوگوں کو کتنی اہمیت دینی ہے اور کیا پڑھنا ہے۔

یہ ایک مضبوط سائیکی ہے جو اس سماج میں اتنی پختگی سے پروان چڑھ چکی ہے کہ مرد چاہے وہ کہیں بھی ہو گھر میں، گلی میں بازار میں، تعلیمی ادارے میں یا کسی شاپنگ مال میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ اسے حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ اس کی نظر میں اپنا مقام بلند ہے اور اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی خاتون کو خود سے کمتر سمجھے۔ ضروری نہیں کہ وہ اسے ہراساں ہی کرے۔ لیکن اس کے دماغ میں یہ بات فٹ ہے کہ عورت چاہے وہ کوئی بھی ہو اسے مردوں کے معاشرے کے بنائے اصولوں کو فالو کرنا چاہیے۔

آئے روز خواتین پہ گھریلو تشدد کی خبریں جنہیں قانون بھی لوگوں کا ذاتی معاملہ کہہ کے ٹال جاتا ہے، ہراسانی اور ریپ کے واقعات جس میں وکٹم کو ہی مورد الزام ٹھہرا کے جسٹیفیکیشن ڈھونڈی جاتی ہے۔ ذہنی اور جذباتی اذیت جو نان وربل زبان میں پہنچائی جاتی ہے اس سوچ کی عکاس ہے کہ مرد نے سمجھ لیا ہے اور معاشرے نے تسلیم کر لیا ہے کہ عورت ایک کمتر مخلوق ہے۔ اسے ہر صورت محکوم بن کے رہنا ہے۔ اور کسی بھی جرم، ظلم زیادتی کی صورت میں وہ خود اس کی ذمہ دار ہے۔ اس پہ ظلم کرنے والا مکمل طور پہ درست ہے۔

کبھی سنا ہے کہ کسی راہ چلتے لڑکے پہ کسی لڑکی نے فقرہ کسا ہو۔ اسے اشارے کنائیوں میں باتیں سنائی ہوں، کسی مرد نے عورت کے ساتھ ایک ہی بس میں سفر کرتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھا ہو کہ کہیں وہ عورت اسے چھو نہ لے، تنگ نہ کرے۔ یا ڈرائیونگ کرتے اسے فکر ہو کہ اس کی شرٹ درست ہو کوئی اسے گھور کے نہ دیکھ رہا ہو یا اسے فکر ہو کہ کوئی اس کے پرائیویٹ پارٹس کو گھور رہا ہے اور اس نے ان ایزی فیل کیا ہو۔ ایسا ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب کرنے کا حق مرد کو حاصل ہے کہ وہ شعوری اور لاشعوری طور پہ عورت کو محسوس کروائے کہ یہ سماج اس کے لیے نہیں ہے وہ اپنے سروائیول کی جنگ لڑ رہی ہے اور اسے یہ جنگ ہر صورت کرنا ہے۔

وہ یہا‌ں نور مقدم کی طرح بے دردی سے قتل بھی کر دی جائے تو لوگ قاتل کی طرف داری کے جواز ڈھونڈ لائیں گے اور مقتولہ کو ہی الزام دیں گے، اسے کوئی بھیڑیا نوچ لے تب بھی وہی قصور وار ہے، کوئی اسے ذہنی جذباتی طور پہ ٹارچر کرے یا جسمانی اذیت دے تب بھی وہی اس کا باعث ہے۔ گویا اس کا وجود رکھنا، سانس لینا ہی ان سب ظلم اور زیادتیوں کو جسٹیفائی کرنے کے لیے کافی ہے۔

یہاں اگر کبھی قانون کو جوش آتا ہی ہے کہ اس بے چاری مخلوق پہ ہونے والے ظلم سے بچاو کے لیے کوئی لا اینڈ آرڈر بنا لیا جائے۔ کوئی مدد پہنچا دی جائے تب بھی انہیں حاکموں کو جوش آتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ عمل درآمد تو خاک ہونا ہوتا ہے لیکن یہ بھی برداشت نہیں کہ چلو لکھت پڑھت میں ہی کوئی بات ہو جو عورتوں کو تھوڑا تحفظ کا احساس دے دے۔

ایک پختہ سوچ ہے جس نے یہاں کی عورتوں کو بھی ذہنی مفلوج بنا دیا ہے اور وہ یہ شعوری یا لاشعوری طور پہ تسلیم کرنے کو مجبور ہیں کہ وہ کوئی سیکچوئیل اوبجیکٹ ہیں مردوں کی تسکین کا سامان ہیں۔ ان کی اپنی کوئی زندگی ہے نہ اختیار، وہ ایک کٹھ پتلی ہیں جو مردوں کے ہاتھوں ناچتی رہے گی وہی کرے، سوچے اور محسوس کرے گی جو سماج اس سے چاہے گا۔ انہی خطوط پر چلے گی جو اس کے لیے طے کیے گئے ہیں اور انہیں راستوں پہ سسکتی رہے گی جو اس کے لیے لکھ دیے گئے ہیں۔ ایک غیر محفوظ معاشرے کی حصہ دار عورت اپنی ہستی کے لیے، وجود کے لیے اور زندگی کے لیے لمحہ با لمحہ جنگ لڑنے والی کیسے پرسکون زندگی گزار سکتی ہے۔ کیسے سوچ سکتی ہے کہ زندگی پہ اس کا حق ہے اور وہ ایک مکمل انسان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments