انڈیا میں ایک ماں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی کو ’دادا اور چچاؤں نے جینز پہننے پر مار مار کر ہلاک کر دیا‘

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دلی


انڈیا میں کم عمر لڑکیوں کو اپنے گھروں میں بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی بہت سی خبریں حالیہ دنوں میں ملک بھر کے ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں نظر آئی ہیں۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں ایک 17 سالہ لڑکی نیہا پاسوان کو مبینہ طور پر اس کے خاندان کے افراد کی طرف سے جینز پہننے کی وجہ سے اس بے دردی سے مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔

لڑکی کی والدہ شکنتلا دیوی پاسوان نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ ان کے پسماندہ ترین ضلع دیوریا کے گاؤں سیورجی کھارگ میں مبینہ طور پر لڑکی کے دادا اور چچاؤں نے جینز پہننے پر لڑکی کے ساتھ بحث کے بعد اس کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔

لڑکی کی ماں نے کہا کہ ‘ان کی بیٹی نے ایک دن کا ورت یا روزہ رکھا تھا۔ شام کو اس نے جینز اور قمیض پہن کر مذہبی فرائض انجام دیے۔ جب اس کے دادا دادی نے اس کے لباس پر اعتراض کیا تو نیہا نے جواب دیا کہ جینز بھی پہننے کے لیے بنائی گئی ہے اور وہ یہ ہی پہنیں گی۔’

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ بحث مار پیٹ میں بدل گئی۔

شکنتلا دیوی نے کہا کہ جب ان کی بیٹی بے ہوش پڑی تھی تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ وہ آٹو رکشا بلا کر اس کو ہسپتال لے جا رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘وہ مجھے ساتھ نہیں لے کر گئے اور جب میں نے اپنے میکے والوں کو خبردار کیا اور وہ ضلعی ہسپتال پہنچے تو وہاں انھیں کوئی نہیں ملا۔’

اگلی صبح انھیں خبر ملی کہ ایک لڑکی کی لاش گندک دریا، جو اس علاقے سے گزرتا ہے اس پر بنے ایک پل سے لٹکی ہوئی ملی ہے۔ وہ جب یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ لاش کسی کی ہے وہاں پہنچنے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تو نیہا کی لاش تھی۔

پولیس نے نیہا کے دادا، دادی، چچاؤں، چچیوں، رشتے کے بھائیوں اور آٹو ڈرائیور سمیت دس افراد کے خلاف اقدام قتل اور ثبوت ضائع کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ملزمان کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

سینیئر پولیس اہلکار شری یش ترپھاٹی نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ چار افراد جن میں لڑکی کے دادا، دادی، ایک چچا اور آٹو ڈرائیور شامل ہیں ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس باقی ملزمان کی تلاش میں ہے۔

نیہا کے والد امرناتھ پاسوان پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ایک دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنا کام چھوڑ کر گھر واپس آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نیہا سمیت اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے بہت محنت کر رہے ہیں۔

شکنتلا دیوی نے کہا کہ ان کی بیٹی پولیس میں افسر بننا چاہتی تھی لیکن تمام خواب ادھورے رہ گئے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ان کے سسرال والے نیہا پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنی تعلیم چھوڑ دے اور اس کو روایتی کپڑے نہ پہننے پر برا بھلا کہتے رہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا خواتین کے لیے ’سب سے خطرناک‘ ملک

انڈیا میں مسلمان خواتین کی انٹرنیٹ پر ’نیلامی‘

انڈیا: نوجوان خواتین میں خودکشی کی شرح 40 فیصد

نیہا کو غیر روایتی کپڑے پسند تھے اور ان کے گھر والوں نے بی بی سی کو نیہا کی جو دو تصاویر دکھائیں ان میں سے ایک میں وہ ایک لمبی سی قمیض پہنے ہے جبکہ دوسری تصویر میں اس نے جینز اور جیکٹ پہنی ہوئی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کے مطابق پدرشاہی اور قدامت پسند روایات میں ڈوبے معاشرے میں خواتین اور بچیوں کو اکثر گھروں میں تشدد اور جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان گھرانوں کے بزرگوں کی اس میں پوری مرضی شامل ہوتی ہے۔

انڈیا میں لڑکیوں اور عورتوں کو معاشرے میں لڑکوں کو دی جانے والی اہمیت کی وجہ سے پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈیا

عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات عام ہیں اور ملک بھر میں روزانہ 20 خواتین جہیز نہ ملنے یا توقعات سے کم ملنے پر سسرال والوں کی جانب سے ہلاک کر دی جاتی ہیں۔

انڈیا اور خاص طور پر اس کے دیہی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو گاؤں کے بڑوں یا سرپنچوں یا خاندان کے بزرگوں اور مردوں کی طرف سے مسلسل پابندیوں کے ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ ان پر ایسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں کہ وہ کس سے بات کر سکتی ہیں کس سے بات نہیں کر سکتی ہیں، کس سے مل سکتی ہیں کس سے نہیں مل سکتیں اور جہاں ان کے بارے میں یہ خیال بھی ہو جائے کہ ان سے کوئی غلطی سر زد ہو گئی ہے تو ان کو سزا دی جاتی ہے۔

اس ماحول میں یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ نیہا کو مبینہ طور پر اپنی پسند کے کپڑے پہننے پر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ خواتین اور بچیوں پر گھروں میں ہونے والے مظالم کی بے شمار خبروں میں سے ایک خبر ہے جنھوں نے حالیہ دنوں میں انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

گذشتہ ماہ انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع علی راجپور میں ایک اور اندوہناک خبر سامنے آئی تھی جہاں ایک 20 سالہ قبائلی عورت کو اس کے باپ اور تین رشتے کے بھائیوں نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

عوامی رد عمل سامنے آنے کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا اور بتایا کہ اس عورت کو صرف اس لیے سزا دی گئی کہ وہ سسرال میں انتہائی برے سلوک کی وجہ سے بھاگ کر گھر آ گئی تھی۔

ایک ہفتے قبل ضلع دہر میں دو لڑکیوں کو اپنے ایک کزن یا رشتہ دار سے موبائل فون پر بات کرنے کے جرم میں اس کے گھر والوں کی طرف سے بڑی بے دردی سے مارا گیا۔

اس واقع کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ لڑکی کو بالوں سے گھسیٹ کر لایا گیا اور اس کو زمین پر گرانے کے بعد لاتوں اور گھونسوں، ڈنڈوں اور لکڑی کی پھٹیوں سے اس کے ماں، باپ، بھائیوں اور رشتہ کے بھائیوں نے مارا۔

اسی نوعیت کا ایک اور واقع انڈیا کی ریاست گجرات میں پیش آیا جہاں پولیس کے مطابق دو بچیوں کو کم از کم پندرہ افراد جن میں لڑکیوں کے سگے رشتے دار بھی شامل تھے، صرف اس وجہ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن رولی سیوہارے نے کہا کہ ‘یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم بچیوں اور لڑکیوں کو جینز پہننے اور فون پر بات کرنے جیسی باتوں پر ہلاک کر رہے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا خواتین کے لیے ’سب سے خطرناک‘ ملک

انڈیا میں مسلمان خواتین کی انٹرنیٹ پر ’نیلامی‘

انڈیا: کروڑوں خواتین کام کیوں چھوڑ رہی ہیں؟

انھوں نے کہا کہ پدر شاہی معاشرہ انڈیا میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ سیاسی رہنما اور قائدین اور عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے لوگ اکثر خواتین کے خلاف بیانات دیتے ہیں جو ایک غلط مثال بنتے ہیں اور برداریوں اور خاندانوں میں جنسی مساوات کے بارے میں آگہی پیدا نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ عورتوں کی فلاح و بہبود ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس کے لیے وہ ’عظیم و شان‘ منصوبوں کا اعلان کرتی رہتی ہے لیکن حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔

مغربی دنیا میں جو بچے اور عورتیں اپنے گھر میں غیر محفوظ ہوتی ہیں ان کو پناہ گاہوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

سیوہارے نے کہا کہ انڈیا میں پناہ گاہوں اور ایسے مراکز بہت کم ہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کا انتظام اتنا خراب ہے کہ کوئی وہاں جانا نہیں چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان پناہ گاہوں کو بہتر بنایا جائے اور اس کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جانے چاہییں۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مستقل حل خواتین اور بچیوں میں اپنے حقوق کے بارے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp