علمائے اسلام کی کینیڈین جنت اور پاکستانی دوزخ


عزیزان من، تار یخ دان رومن ایمپائر کی انصاف پسندی کا بہت شور مچاتے رہے ہیں کہ وہاں عوام کو ہر طرح کی بات کرنے کی آزادی ہوتی تھی، لیکن آج کی طرح ان کے مذہبی دانشوروں سے بھی حکومتیں ڈر کے رہا کرتی تھیں حتی کہ جولیس سیزر بھی ان دانشوروں کے خلاف کچھ بولنے سے پہلے سو بار سوچا کرتا تھا۔ چونکہ وقت ہمیشہ گردش میں رہتا ہے اور ایک مخصوص چال میں بھاگتا ہی جاتا ہے تو رومن ایمپائر سے ڈائرکٹ آج کے مذہبی دانشوروں میں کود پڑنا شاید آپ کی طبع پر ناگوار گزرا ہو لیکن میرے عزیزو، درمیانی صدیوں میں سوائے چند گنی چنی ہستیوں کو چھوڑ کے آپ کو عیسائیت اور اسلام میں ایسے ہی مذہبی دانشور ملیں گے جو سیاہ رات کو اگر دن کہیں تو عوام تو رہے ایک طرف بادشاہ حضرات تک مان جائیں گے کہ باہر دن ہے۔

عوام اور علمائے دین (بغیر کسی مذہب کی تخصیص کے ) ہمیشہ سے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جسے عام طور پر تقدس کا رشتہ کہا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ تقدس یک طرفہ ہوتا ہے اور صرف علماء اس سے مستفید ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ تقدس کی ایسے پرتوں میں لپٹے ہوتے ہیں کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ دنیا میں جب سے مذاہب کی تشریح ہونا شروع ہوئی ہے ہمیں دو ہی کنارے دکھائے گئے، ایک کنارہ جس میں خوشحالی ہے، شباب ہے، ٹھنڈی میٹھی نہریں ہیں، سونے چاندی کے برتنوں میں بٹتے خوان ہیں، مرجان ہیں، موسموں کی سختیاں کہیں نظر نہیں آتیں، حقوق حاصل ہیں، پرائیویسی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جمہوریت ہے (جس کو جو پسند ہے وہ حاصل کر سکتا ہے ) ۔

دوسرے کنارے میں بدحالی ہے، بیماری ہے، بھوک ہے، لڑتے جھگڑتے لوگ ہیں، گرمیوں میں ایسی گرمی کہ سورج بھی شرمائے اور سردیوں میں ایسی سردی کہ برف بھی ٹھٹھرنے لگے۔ بارش میں دیوار گرے یا چھت، گرنی تو غریب کی ہوتی ہے، جبر ہے، کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ یہ کنارے دکھانے والے علماء ہی ہوتے ہیں، تشریحات کرنے والے، عوام کو دوزخوں سے ڈرانے والے، جلسوں میں قبریں کھدوانے والے، زندہ انسانوں کو کفن پہنانے والے، اپنے جنت کے لیے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں جہنم بنانے والے، عورتوں کے منہ کے اندر اپنی ضد کی وجہ سے گولیاں مروانے والے علماء ہی ہوتے ہیں۔ بے چارے عوام کو سنی، شیعہ، دیوبندی، وہابی اور نجانے کس کس فرقے میں تقسیم کرنے والے بھی یہی مذہبی دانشور ہی ہوتے ہیں۔

علماء کی طرح عالمات بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، یہ کیسی عالمات ہیں جو سر تا پا پردوں میں لپٹی ہوئی (حرام) ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر کچھ عرصہ جلوہ افروز ہوتی ہیں اور غریب عوام کی بچیوں کو کچھ دن اور دوزخ میں جلنے کی نوید سناتی ہیں۔ پردہ پردہ کی رٹ لگاتی ہیں، جنت دوزخ کو باریک بینی سے سمجھاتی ہیں، لیکن کچھ ہی عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ موصوفہ نے تو پیسے کے بل بوتے پر (جو کہ عوام سے ہی اکٹھا کیا جاتا ہے ) کینڈین جنت خرید لی ہے اور اب ملکہ برطانیہ کے حلف تلے دین اسلام کی خدمت فرما رہی ہوتی ہیں۔ رہی بات پاکستان کی دوزخی عورتوں اور مردوں کی تو وہ تو پیدا ہی اسی دوزخ جیسی زندگیوں کے لیے ہوئے تھے، تو پھر گلہ کیسا۔

یہ کیسے علماء ہیں جو پرفیوم سے لتھڑے ہوئے ٹشو پیپرز منہ پر رکھنے کے سوا بات نہیں کرتے، لانگ کوٹ، فل بوٹ پہن کر ہر چھ ماہ بعد سرزمین دوزخ پر نزول فرماتے ہیں، ان کے لیے غیر ملکی آرام دہ پروازوں میں فرسٹ کلاس سیٹوں کا بندوبست ہوتا ہے (جو میرے جیسے بہت سے جہلاء کرنے کو ہر وقت تیار ہوتے ہیں چاہے ہمسائیگی میں کوئی بھوک سے فوت ہی کیوں نہ ہو جائے) اور وہ کچھ عرصہ کے لیے اپنے دوزخی عوام کا مزید خون نچوڑنے تشریف لاتے ہیں، اور ہمیشہ کی طرح ٹیڑھی گردن کر کے کچھ دوزخیوں سے خراج وصول کرتے ہیں، حکومتیں گرانے کے لیے فلی ائر کنڈیشن کنٹینروں میں رہائش رکھتے ہیں اور پھر بینک اکاؤنٹ بھرے جانے کے بعد اپنی خوبصورت کینڈین جنت میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔

سنا ہے کینیڈین نیشنل ہونے کے لیے ملکہ برطانیہ کی بیعت کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ علما (مرد و خواتین) جو پاکستان میں بیعت رسول ﷺ کے علاوہ کسی بیعت کو نہیں مانتے، ملکہ معظمہ کی بیعت ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’میں قسم کھاتا ہوں کہ میں کینیڈا کی ملکہ (ملکہ الزبتھ دوئم ) اس کے ورثاء اور جانشینوں کی سچے دل سے بیعت کروں گا اور یہ کہ کینیڈین شہری کی حیثیت سے کینیڈا کے قوانین کی پابندی کروں گا اور اپنے فرائض پورے کروں گا‘ ۔

ویسے آپس کی بات ہے کینیڈا میں رضامندی سے فحاشی کا جائز ہونا بھی قوانین میں شامل ہے، جس کو ماننا بھی ہر شہری کے فرائض میں شامل ہے تو میری وہ عالمہ فاضلہ بہن جو فل برقعہ کے پیچھے سے پیچ دار آواز میں عورتوں کو پردے کی پابندی کا درس ابھی بھی ایک مشہور و معروف چینل پر دیتی ہیں، کتنی خاموشی سے فحاشی کا جائز ہونا بھی مان چکی ہیں۔ ارے بھائی بس کرتے ہیں، اتنا اتاولا ہونے کی ضرورت نہیں ورنہ کینیڈین جنتیوں کے پاکستانی دوزخی چیلوں نے مار مار کر وہ بھرکس نکالنا ہے کہ الامان الحفیظ! سچ ہے جنت کو پانے کے لیے کچھ نہ کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے، (دوزخی) عوام اپنا آرام و سکون کھو کر، حلال حلال کا ورد کر کے جنت کو پانے کی فکر میں ہیں جبکہ علماء نے صرف عزت کھو کر جنت حاصل بھی کر لی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments