نور مقدم کا نیا کردار، نئی کہانی


نور مقدم اور ظاہر جعفر کی کہانی میں کرداروں کی جگہ بدل کر دیکھتے ہیں۔

یہ اب بھی ایلیٹ ہی رہیں گے، آپ انہیں لو ان ریلیشن شپ میں رکھنا چاہیں تو مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ دونوں کے گھر اب بھی پیسے کی فراوانی رہے گی۔ آپ اب بھی ان پر لبرل ہونے کا ٹھپا لگا سکتے ہیں گرچہ مجھے شک ہے کہ آپ ہی کی طرح ان دونوں نے بھی لبرل ازم کے فلسفے کا کبھی مطالعہ نہیں کیا ہو گا لیکن خیر، جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔

اب سوچیے کہ جس بے وفائی کی بات ہو رہی ہے وہ نور نے نہیں، ظاہر جعفر نے کی تھی۔ دونوں پھر اس گھر میں اکٹھے ہیں۔ لڑائی ہوتی ہے۔ الزام ظاہر جعفر پر ہے۔ بات بڑھ جاتی ہے پر کتنی بھی بڑھ جائے، کیا ہو گا۔ کیا نور مقدم ہاتھ اٹھائے گی۔ چلیے مان لیتے ہیں اس کا ہاتھ اٹھ گیا ہے۔ کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ، ایک تھپڑ، چند ایک دھکے۔ اس کے جواب میں ظاہر جعفر کیا کرے گا؟

کیا یہ ممکن ہے کہ دفاع کرتے کرتے ظاہر جعفر پہلی منزل سے نیچے آ گرے۔ کیا وہ اتنا خوفزدہ ہو گا کہ نور مقدم سے بچنے کے لیے گارڈ کی کوٹھڑی میں بند ہو جائے۔ کیا نور مقدم اسے بالوں سے گھسیٹ کر دوبارہ اندر لے جا سکے گی۔ کیا اس صورت میں گارڈ خاموش کھڑا تماشا ہی دیکھے گا یا کچھ اور کرے گا۔ گارڈ کی جگہ مرد کے بجائے ایک عورت کو بھی رکھا جا سکتا ہے۔ کردار بدلنے ہیں تو سب بدل دیتے ہیں، پر کیا اس سے کہانی میں کوئی ٹوئسٹ آ سکتا ہے۔

بفرض محال اگر نور اور جعفر ظاہر دوبارہ اندر چلے گئے تو کیا نور مقدم دو گھنٹے سے زائد ظاہر جعفر پر تشدد کر سکے گی۔ کیا اس کا غصہ اور وحشت اس نہج تک پہنچ سکے گا کہ وہ ظاہر جعفر کا سر قلم کر کے کمرے کے ایک کونے میں پھینک سکے۔

اب کردار کی جگہ منظر بھی بدلا جا سکتا ہے۔ سوچیے، کہ ایک باپ اپنے چودہ ماہ کے بچے کے ساتھ اکیلا کہیں موجود ہے۔ یعنی ماں کا وجود اس تصویر میں ہے ہی نہیں۔ چودہ ماہ کے بچے کو ماں کے بغیر سوچنا آپ کے لیے مشکل ہو گا لیکن میری خاطر، کوشش کر لیجیے۔

اس تصویر میں ایک یا ایک سے زائد عورتوں کو بھی پینٹ کر لیجیے۔ اب سوچیے کہ ان عورتوں کا جنسی ابال اتنا زور پکڑ چکا ہے کہ انہیں ایک باپ نہیں، بس ایک مرد نظر آ رہا ہے جو ان کی ہوس کی تسکین کا سامان ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایک منٹ، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت یا عورتوں کا گروہ ایسا سوچے۔ پر کیا ہے کہ ہمیں ایک مختلف کہانی لکھنی ہے تو ہم فرض کر لیتے ہیں لیکن فرض کرنے کے بعد کیا؟

کیا یہ عورتیں اس چودہ ماہ کے بچے کے سامنے اس کے باپ کو اپنی ہوس کا کھلونا بنا پائیں گی۔ کیا ان کے لیے ممکن ہے کہ اس وحشت میں یہ اس بچے کی جان بھی لے لیں اور ایک بچے کی لاش کے سامنے اس کے باپ کو اس حد تک بھنبھوڑ سکیں کہ ایک دن کے لیے وہ زندہ لاش بن جائے۔ جی، بس ایک دن کے لیے کیونکہ پھر اس نے بھی مر جانا ہے۔ سوچیے، ایسا ہو سکے گا؟

آئیے، ایک مدرسے میں چلتے ہیں۔ ارے، مدرسے کے نام سے آپ بگڑتے کیوں ہیں۔ مدرسہ، یونیورسٹی، سکول، مسجد، جو مرضی جگہ کا نام رکھ لیجیے۔ مجھے اس سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اس کہانی میں ایک پروفیسر رکھ دیجیے، مہتمم رکھ دیجیے یا امام رکھ دیجیے۔ اور دوسرا کردار تو آپ جانتے ہی ہیں، ایک طالب علم۔ مرد اور عورت کی اب کیا تخصیص کرنی، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی عمر بھی کم ہونی چاہیے اور اس کا دائرہ اختیار بھی۔

اب سوچیے کہ طالب علم، طالب علم نہیں رہا، طالب وصال بن گیا ہے۔ اب اس کی تدبیر کیا ہو۔ کیا استاد کو بلیک میل کرنا ممکن ہے۔ کیا اسے اس حد تک مجبور کیا جا سکے گا کہ شاگرد جب چاہے، اس کے جسم سے کھیل سکے۔ کیا ہتھیار ہیں اس کے پاس؟ کیا وہ یہ کہے گا یا کہے گی کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کی گئی تو وہ سالانہ فیڈ بیک میں استاد کی برائیاں کر سکتا ہے یا کر سکتی ہے۔ کیا یہ دھمکی کافی ہو گی؟ کیا وہ مسلسل استاد کو ایسے ذہنی ٹارچر میں مبتلا کر سکے گا یا کر سکے گی کہ استاد تنگ آ کر اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ سوچیے، سوچیے، نئی کہانی کیسے لکھی جائے۔

آپ چاہیں تو زینب اور عمران نقشبندی کی کہانی الٹ کر دیکھ لیں۔ مختاراں مائی اور مظفر گڑھ کے پنچایتیوں کی جگہ بدل کر دیکھ لیجیے۔ ڈاکٹر شازیہ اور کپتان صاحب کی ادلی بدلی کر لیجیے۔ عثمان مرزا کی جگہ اس کمزور سی لڑکی کو دے دیجیے اور ساتھ اس کی چھ سہیلیاں بھی ڈال لیجیے۔ اور تو اور کچھ بکریوں اور گدھیوں کو ان کے چرواہوں کی جگہ دے کر دیکھیے۔

آپ جانتے ہیں کہ اس رول پلے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ کوئی سنسنی خیز خبر نہیں بن پائے گی، کوئی ریپ ریکارڈ نہیں ہو گا، کسی قتل کا سراغ نہیں ملے گا، کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے کو دستیاب نہیں ہو گی۔ آپ کے سارے جواز، سارے تجزیے، ساری وکٹم بلیمنگ دھری کی دھری رہ جائے گی۔

یہ جو کھیل ہمارے گرد روز کھیلا جاتا ہے اس کی بنیاد میں صرف ایک جواز ہے اور وہ ہے طاقت کا جواز۔ اور اس جواز کو جلا بخشنے والا ہر وہ فلسفہ جہاں مرد کو فوقیت صرف اس بنیاد پر ہے کہ اس کے پٹھے زیادہ مضبوط ہیں اور اس کا قد زیادہ اونچا ہے۔ تشدد کی نفسیات میں طاقت کا یہی عدم توازن کارفرما ہے۔ اس کا علاج کر لیجیے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

لیکن علاج کون کرے گا؟ ہم کہتے ہیں صنفی مساوات کا درس، اختلاط کے آداب، جنسی تعلیم، معاشرتی شعور، سماجی آگہی، آزادی اظہار، قانون کی سربلندی، ۔ آپ کہتے ہیں نہیں، یہ ساری ”لبرل“ آئیڈیالوجی والی باتیں ایک مسلم معاشرے میں، استغفر اللہ۔

چلیے صاحب، آپ دینی نظریے کے ٹھیکیداروں کے مقابل اپنا خودساختہ ولن کھڑا کر کے اسے لبرل کہہ لیجیے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں پر یہ تو دکھا دیجیے کہ کسی بھی لبرل نظریے میں عورت یا کمزور پر تشدد کی حمایت کہاں ہے۔ وہی حمایت جس کے لیے آپ کے پاس دفتر کے دفتر ہیں۔ سنیں گے اس بارے میں؟

ابھی اسی ہفتے پارلیمان میں مقدسات کے محافظ کہہ رہے تھے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف بل خلاف اسلام ہے سو حرام ہے۔ اسلامی نظریات کا تحفظ کرنے والی دنیا کی واحد کونسل کا سربراہ کہتا رہا کہ عورت کا محل تولد مرد کی ملکیت ہے، اس کے فاسد ہونے کا خطرہ ہو تو مرد کو مارنے کا حق تو ہے۔ تحفظ نسواں بل کی حمایت میں منہ کھولنے والے شریعت کے معتوب ٹھہرے کہ نہیں؟ جبے اور دستار والے، سولہ کی نہ ملے، تو آٹھ آٹھ کی دو کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ اور جہاں یہ سب ہو رہا ہے وہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ قتل اس لیے ہو رہے ہیں کہ لوگ دین سے دور ہو گئے ہیں۔

چلیے ایک رول پلے اور کر کے لوگوں کو دین کے قریب کر دیں، پھر دیکھیے کیا کہانی لکھی جاتی ہے پر یاد رہے کہ دین کی تشریح میں مرد کل بھی عورت پر حاکم تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ جو اسے محافظ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی پیمانہ طاقت ہی ہے جس سے مرد اور عورت کو ناپا جائے گا۔ کمزور کا محافظ طاقت ور۔ رعایا کا حاکم طاقت ور۔ تو میرے دوست، جب تک مرد کے ذہن میں یہی پیمانہ نقش کیا جاتا رہے گا، کوئی نور مقدم، کوئی زینب، کوئی مختاراں مائی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔

چلتے چلتے ایک پنچ لائن سن لیجیے۔ اسی سوشل میڈیا پر نور مقدم کے قتل کے خلاف ہوئے احتجاج کے سٹیٹس کے نیچے ایک اٹھارہ سال کا لڑکا لکھتا ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں عورت وہی ہوتی ہے جو گھر سے باہر نہ نکلے اور مرد وہی ہوتا ہے جس کے باہر سے آنے پر عورت لیٹی ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھی ہو تو کھڑی ہو جائے اور کھڑی ہو تو بڑھ کر مرد کی خاطر کا سامان شروع کر دے۔ اور جو عورت مرد کو ایسی عزت نہ دے اس کو ٹھیک کرنے کے لیے شرعی اجازت کے عین مطابق دو تھپڑ لگانے چاہئیں، تاکہ گھر کا نظام ٹھیک رہے۔

آپ غلط سمجھے، پنچ لائن یہ نہیں ہے۔ پنچ لائن یہ ہے کہ احتجاج والے سٹیٹس پر دو سو آنسو والے ایموجیز تھے اور اس کمنٹ پر ایک ہزار دل والے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments