سوشل میڈیا۔ صحبت طالع ترا طالع کند


دنیا کی ہر شے کا استعمال صحیح اور غلط طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر ایجاد کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ اس کا ورتاؤ آسانی، ترقی، خوشحالی اور سہولت کے لیے کیا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شے کو تخریب کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آس پڑوس میں ہونے والے واقعے کی خبر دو تین دن بعد انسان کے کان تک پہنچتی تھی لیکن سوشل میڈیا کے سبب دنیا کے ایک کونے میں وقوع پذیر ہونے والا واقع چند ساعتوں کے بعد دوسرے کونے تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا کی بدولت جہاں آسانیاں آئیں اور انگلی کی ایک جنبش سے انسان دنیا جہاں سے جڑ کر رہ سکتا ہے وہیں یہ درد سر بھی بن گیا ہے۔ اس کی بدولت انسان مشہور اور نیک نام تو سکتا ہے لیکن ساتھ ہی رسوا، بدنام اور ذلیل و خوار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اخلاقی گراوٹ کو عروج دے رہا ہے اور ان اصولوں اور قدروں کو ملیا میٹ کر رہا ہے جن کے تحت ہمیں زندگی بسر کرنی تھی۔ فیس بک ہو یا انسٹاگرام ان ایپز کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ویڈیوز ہر بچہ، بزرگ، مرد، عورت دیکھ لیتا ہے۔

ان ویڈیوز میں فحاشی، بدکلامی، گالی گلوچ، جنس کو اشتعال دینے والی باتیں اور ننگا پن ہوتا ہے۔ اس کا اثر دیکھنے والے پر ضرور ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی ہی نازیبا حرکات، بدکلامی اور فحش کلامی سیکھ لیتا ہے۔ بڑے بوڑھے تو خیر جیسے تھے ویسے ہی رہے گے ان پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوگا لیکن نوجوانوں اور بچوں پر اس کے بہت زیادہ برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ان مخرب اخلاق ویڈیوز کو دیکھنے کے سبب ہمارے معاشرے میں بچے ادب آداب کے طریقے، اخلاق، تمیز اور مہذب طریقے سے بات کرنا بھول گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر نہیں پکارتے بلکہ سالے کا لاحقہ لگا کر ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ طوفان بدتمیزی کا ہر گھر کے چراغ کو آلودہ کر رہا ہے۔ ایک دو گھروں میں ہی نہیں بلکہ پورے کے پورے معاشرے پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔

فیس بک اور انسٹاگرام کا ہماری نظر میں بس یہی استعمال رہا ہے کہ اپنی فوٹو اور ویڈیو اٹھا کر ان کی ان ایپز پر تشہیر کرنا۔ ان کے جتنے بھی منفی پہلوؤں ہو سکتے ہیں ہم ان کو ہی استعمال میں لاتے ہیں۔ ان ایپز پر جو چھوٹے چھوٹے ویڈیو فحش، بدکلامی اور اخلاق سوز حرکات پر مبنی ہوتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی میں نوعمر بچے اور بچیاں ہی نہیں بلکہ جوان اور پختہ ذہن رکھنے والے اشخاص بھی اسی طرز پر، ویسی ہی مخرب اخلاق باتیں اور حرکات دہرا کر اپنی ویڈیو بناتے ہیں اور اپلوڈ کر دیتے ہیں۔

یہ رجحان بڑی تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ بڑی تیزی سے نوجوان نسل ویڈیوز بناتے ہیں جن میں وہ فلمی گانے چلا کر ناچتے ہیں، برہنہ سر رقص کرنا، مختلف خلاف تہذیب و تمیز حرکات کرنا، گالی گلوچ، بدتمیزی اور بد اخلاقی کی تمام سرحدوں کو پھلانگنا، اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کو روندنا، وقار کو ملیامیٹ کرنا، بے پردگی کو رواج دینا اس حرکت کی بدولت عام ہو گیا ہے۔

جو چیزیں پردے میں رہنی چاہیے تھی ان کی بنا شرم و حیا کے تشہیر کی جاتی ہے۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے یا گھر میں کوئی تنازعہ ہو، خود کو بے قصور اور مظلوم ثابت کرنا ہو تو فوراً سوشل میڈیا کا رخ کیا جاتا ہے۔ پہلے گھر کی بات گھر تک ہی محدود رہتی تھی۔ گھر کی بات پردے میں رکھی جاتی تھی۔ شرم محسوس ہوتی تھی اگر کوئی ایسی حرکت کرتا جس سے بدنام ہونے کا خدشہ تک ہوتا۔ اب ہمارا وتیرہ بن گیا ہے کہ ان سب باتوں اور معاملات کی تشہیر کرتے ہیں جو اگر صیغہ راز میں رہتے تو بہتر ہوتا۔ میاں بیوی میں پیار اور تلخی دن رات کی طرح چلتی رہتی ہے۔ معمولی باتیں بعض دفعہ جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذاق مذاق میں لڑائی ہوجاتی ہے۔ یہ اختلاف اور گھریلو جھگڑے چار دیواری تک ہی محدود رہنے چاہیے تھے نہ کہ ان کی بڑے پیمانی پر سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جاتی۔

کوئی حادثہ پیش آئے یا کسی کے ساتھ کوئی ان ہونی ہو جائے اس کی عکس بندی کر کے فیس بک اور انسٹاگرام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہوتا کوئی بھی واقعہ چاہیے اہم ہو یا غیر اہم، ضروری ہو یا غیر ضروری اس کی ویڈیو بنا دی جاتی ہے اور منتشر کر دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ضرورت مند مدد مانگتا ہے اور اسی پر پیشہ وار بھیکاری رونا رو کر لوگوں کی ہمدردیاں ہی نہیں سمیٹتے بلکہ مال و زر بھی جمع کرتے ہیں۔ ہمارے ذہانت اور اخلاقیات میں اتنی گراوٹ آ چکی ہے کہ ہم اب سوگ اور ماتم کے وقت بھی موبائل ہاتھ میں رکھ کر ویڈیوز بناتے ہیں اور بعد میں خود ہی سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ سوگ اور ماتم میں ڈوبا ہوا شخص جسے حقیقی صدمہ ہوا ہو کیسے ویڈیو بنانے کی ہمت کر سکتا ہے اور گھر والے کیسے یہ اجازت دے دیتے ہیں کہ ویڈیو بنائی جائے۔ اس کا مطلب ہم مگرمچھ کے آنسو بہا کر غمگین اور ماتم زدہ ہونا کا دکھاوا کر رہے ہیں۔

بری صحبت، عادت اور پرورش انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ جانور کو اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھا ماحول مل جائے تو اس کی حرکات و سکنات بدل جاتی ہیں۔ وہ مہذب طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔ بہتر طریقے سے کھاتا پیتا، اٹھتا بیٹھتا اور سوتا جاگتا ہے۔ انسان کو بری سنگت مل جائے تو اسے ہر وہ لت لگ جاتی ہے جو برائیوں کا منبع اور بربادیوں کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ اس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ موبائل فون جو ضرورت بن گیا ہے اس کا استعمال ضرورتوں کے لیے ہی کیا جائے ناکہ عیاشی اور فحاشی کے لیے اسے استعمال میں لایا جائے جس کے لیے اس کو آج ورتایا جا رہا ہے۔

کچے ذہن کے بچے کو کیا پتا کہ وہ جو ویڈیو بنا رہا ہے اس سے نہ صرف وہ خود بدزبانی اور بدکلامی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ دوسرے بچوں کو بھی اس کی لت لگا رہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ بعض والدین خود بچوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بچوں سے زیادہ والدین کو تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ بچوں کی کلکاریاں، ہنسا مسکرانا، معصوم انداز میں باتیں کرنا اور توتلی زبان میں گالی دینا بھی مزہ دیتی ہے اور والدین اور رشتہ داروں کے لیے انبساط کا ذریعہ بنتی ہے لیکن اخلاق بہرحال اخلاق ہے اور بدتمیزی اور بدزبانی برائی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیل رہی ہے۔

ایسے میں والدین کا ایک خاص کردار بنتا ہے کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت کے لیے کوشاں رہے نہ کہ چند ساعتوں کی خوشی کے لیے ان کا مستقبل برباد کردے، انہیں بدتمیزی بنائے، بدکلامی اور فحش گوئی سکھائے۔ اس طوفان بدتمیزی کو روکنے کے لیے والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں تاکہ وہ بری سنگت، برے کاموں اور بدزبانی سے بچ جائیں۔ موبائل فون ان کے ہاتھوں میں دینے کے بعد ان پر نظر رکھیں کہ کیا دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی بتائے کہ انہیں کیا دیکھنا چاہیے۔

نوجوان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ویڈیوز بنانے کے بجائے ان کاموں کی طرف توجہ کریں جن سے ان کی آخرت سنور جائے گی۔ مختلف قسم کے فحش ویڈیوز بنا کر ان کی دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے مشہوری تو ہوگی لیکن آخرت بگڑ جائے گی۔ بہتری اسی میں ہے کہ وہ کام کیے جائیں جن سے اللہ رب العزت راضی ہو جائے گا اور ان کاموں سے پرہیز کیا جائے جن سے اللہ رب العزت نے منع فرمایا ہے۔ نوجوان اور بچے نہ صرف خود کو فحش گفتگو اور ناچ گانے سے بچانے کی سعی کر سکتے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور منزل کا تعین کریں کہ ہمیں کس سمت جانا تھا اور ہم کہاں جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments