ہنگری کی زبان اور ایک سفارت کار



ہنگری زبان کے متعلق میرا ایک دوست کہتا ہے کہ یہ اتنی جہنمی زبان ہے کہ میرا بھی اسے سیکھنے کو دل نہیں چاہتا حالانکہ اس نے کوئی بھی دوسری زبان نہیں سیکھی۔ لیکن بات اس کی کسی حد تک ٹھیک ہی ہے۔ یہ زبان واقعی بہت پیچیدہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک کروڑ کے قریب لوگ اس زبان کے بولنے والے ہیں  اور وہ اس پہ اس قدر فخر کرتے ہیں کہ الامان۔ ہماری یونیورسٹی چونکہ بین الاقوامی یونیورسٹی ہے تو چاہیے تو یہ کہ سبھی ہدایات اور معلومات انگریزی میں لکھی جائیں مگر ایسا نہیں ہے۔

آپ کو سبھی کچھ Hungarian زبان میں ہی لکھا ملے گا۔ ہنگری نے اپنی سرحدیں مختلف قوموں کے لیے کھول رکھی ہیں لیکن اپنی زبان پہ یہ لوگ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ایک کروڑ عوام کے لیے سب کچھ Hungarian میں دستیاب ہے۔ ادھر ایک مووی مارکیٹ میں آتی ہے ادھر اس کی Dubbing ہنگرین (Hungarian) میں کر دی جاتی ہے۔ یہی حال کتابوں کے ساتھ ہے۔ شاید ہی کوئی بین الاقوامی شہرت کی حامل کتاب ہو جس کا ترجمہ Hungarian میں نہ ہوا ہو۔

آپ اندازہ کریں کہ دنیا بھر سے طالب علم یہاں تعلیم کے حصول کے لیے آتے ہیں جو کہ ظاہری بات ہے انگریزی ہی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن اس قدر بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود اگر آپ کو کوئی کتاب انگریزی میں خریدنا ہو تو جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے۔ چار پانچ دکانوں سے پتا کرنا پڑتا ہے پھر جا کر اگر آپ کی قسمت اچھی ہو اور آپ نے اس تلاش میں نکلنے سے پہلے دو نوافل پڑھے ہوں تو کتاب آپ کو ملتی ہے۔

حروف تہجی تو اس زبان کے انگریزی سے ہی ملتے جلتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ان پہ اعراب لگے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ آپ حرف ”O“ کو لیجیے۔ اس کو Hungarian میں تین مختلف طریقوں سے ادا کیا جاتا ہے۔ ایک تو ہوا سادہ ”O“ ، پھر ایک جنتی ”Ó“ (جسے میں بھی ادا کر لیتا ہوں ) اور تیسرا ہے جہنمی ”Ö“ (جسے ادا کرنے کی کئی بار ناکام کوشش کی گئی ہے ) ۔ اسی طرح ”A“ اور ”Á“ کو بھی آپ حسب تجزیہ جنتی اور جہنمی کی جماعت میں ڈال سکتے ہیں۔

یہ سہولت ”E“ اور ”I“ کے لیے بھی ہے کہ ان کو بھی ”É“ اور ”Í“ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ ”U“ کے ساتھ تو خاص طور پہ یہ مسئلہ ہے کہ اسے جنتی جہنمی میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اپنی آسانی کے لیے کوئی نیا نظام متعارف کروائیں کیونکہ اس کے چار مختلف طریقے ہیں ادا ہونے کے۔ ”U“ ، ”Ú“ ، ”Ű“ ، ”Ü“ ۔ ابھی آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم نے تین سال میں تین سے زیادہ لفظوں کو سیکھنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی۔

یار لوگوں کو اکثر گلہ رہتا ہے کہ ہم یہاں اتنے عرصے سے رہ رہے ہیں اور زبان نہ سیکھ سکے اور پھر یہ کہ چونکہ Budapest ایک بین الاقوامی شہر ہے تو یہاں کے لوگوں کو انگریزی تو آنی ہی چاہیے۔ ایک دفعہ میں اپنی دوست کی ماں کو دکھڑا سنا رہا تھا کہ بھئی فلاں دوشیزہ نے مجھ سے بات کرنے کہ کوشش کی لیکن افسوس اسے انگریزی نہیں آتی تھی۔ موصوفہ نے فرمایا ”اور تمہیں Hungarian بھی تو نہیں آتی تھی“ ۔ بات تو ٹھیک ہے مگر اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ زبان کس قدر مشکل ہے۔

ویسے یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ جب ہم کسی اجتماع میں ہوتے ہیں یا پھر Metro وغیرہ میں تو ہمارے اردگرد لوگ گپیں لگا رہے ہوتے ہیں مگر ہم غریب ساس اور بہو کے جھگڑوں کی باتوں سے محظوظ نہیں ہو پاتے۔ ویسے اس طرح ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں نہیں سمجھ پاتے۔ ہم چاہے سامنے بیٹھے موٹے سے شخص کے پیٹ کی گولائی ماپنے کی ہی کوشش کیوں نہ کر رہے ہوں مجال ہے جو کسی کو اس کا علم ہو۔ لہذا جب یار لوگ اس طرح کی صورت حال میں ہوتے ہیں، کھل کر، لوگوں کے سامنے ان کی برائیاں کرتے ہیں۔ وہ دیکھو اس نے کس واہیات رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ فلاں نے آج کچھ زیادہ ہی میک اپ کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری یہ عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ کئی دفعہ اس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے۔

احباب کو یہاں پاکستانی سفارت خانے نے 14 اگست، یوم آزادی کے موقع پر مدعو کیا۔ اب یہ لوگ چاہے جتنے مرضی Anti۔ Nationalist سنتے رہیں، اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اب دعوت طعام کو ہی ٹھکرا دیں۔ ہمیں تو نہ مدعو کیا گیا اور نہ ہی ہمارے ایمان کا امتحان ہوا۔ احباب نے وہاں پاکستانی کھانے کھائے اور فوراً ہی آستین کا سانپ بن کر پاکستانی سفارتکار کی بدخوئیاں شروع کر دیں۔ اب یہ بیچارے تو یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ کسی Metro میں بیٹھ کر سامنے بیٹھے بالو کی درگت بنا رہے ہیں اور قہقہے پہ قہقہہ لگا رہے ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ سفارتکار صاحب بالکل ان کے پیچھے کھڑے ان کی باتوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

موصوف کی پوری فیملی بیوی بچوں سمیت تقریب میں موجود تھی اس لیے بات جب خاندان پہ آئی تو موصوف نے گلا صاف کرتے ہوئے ”السلام علیکم“ کہا اور پوچھا کہ ”آپ میرے متعلق گفتگو فرما رہے ہیں؟“ بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ دن اور آج کا دن، احباب نے صدق دل سے توبہ کر رکھی ہے کہ اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے کسی پاکستانی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ خیر ان کو اس کے بعد مدعو بھی نہیں کیا گیا اب یہ چاہیں تو طعام کی برائیاں کریں یا سفارتکار کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments