پاک افغان ٹریڈ: تاجر افغان حکومت کے علاوہ طالبان کو بھی بھاری ٹیکس دینے پر مجبور


پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کے ذریعے روزانہ سیکڑوں ٹرک مال لے کر گزرتے ہیں۔
چمن — افغانستان میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جاری لڑائی کے اثرات افغانستان کی دیگر ممالک کے ساتھ تجارت اور تعلقات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ حال ہی میں پاک، افغان سرحد اسپن بولدک پر طالبان کے مبینہ کنٹرول کے بعد تاجر ٹیکسز میں اضافے کی شکایات کر رہے ہیں۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور افغان حکام تاجروں کے سامان کی محفوظ منتقلی کے لیے الگ الگ ٹیکس وصول کر رہے ہیں جب کہ ان علاقوں میں اب بھتہ خور بھی سرگرم ہو گئے ہیں۔

یومیہ ہزاروں ٹرک پاک افغان سرحد چمن-اسپن بولدک سے سامان لے کر افغان شہر قندھار جاتے ہیں۔ تاہم افغانستان میں جاری لڑائی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تجارت پر بھی اثر پڑا ہے۔

خیال رہے کہ چمن پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی شہر ہے جب کہ اسپن بولدک افغانستان کے صوبہ قندھار کا شہر ہے۔

پاکستان نے چند روز قبل اسپن بولدک میں طالبان کے مبینہ کنٹرول اور غیر یقینی صورتِ حال کے بعد سرحد تجارت کے لیے بند کر دی تھی۔ البتہ اب طالبان کے بظاہر سرحد پر کنٹرول رکھنے کے بعد پاکستان نے بھی رواں ہفتے تجارت بحال کر دی تھی۔

طالبان نے مئی میں افغانستان کے مختلف علاقوں خصوصاً ہمسایہ ممالک سے ملنے والے بارڈرز کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ طالبان نے تاجکستان، ایران اور اس کے بعد پاکستان سے ملحقہ اسپن بولدک بارڈر پر اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔

گو کہ طالبان افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہیں، تاہم اب بھی وہ صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ نہیں کر سکے۔ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ مئی کے بعد سے لے کر اب تک مختلف جھڑپوں میں سیکڑوں طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

تاجروں کی مشکلات

ایک ٹرک ڈرائیور ہدایت اللہ خان نے افغانستان سے چمن پہنچنے پر خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ وہ قندھار سے اپنے ٹرک میں انگور لدوا کر لائے ہیں۔ لیکن سرحد تک پہنچنے تک اُنہوں نے تین مقامات پر بھتہ دیا۔

اُن کے بقول ایک جگہ پر اُنہوں نے تین ہزار لگ بھگ 20 ڈالر جب کہ ایک مقام پر دو ہزار اور ایک اور مقام پر ایک ہزار روپے بھتہ دیا۔

ہدایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہ رقم بارڈر پر طالبان اور افغان کسٹم حکام کو دیے گئے ٹیکس کے علاوہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق اسپن بولدک میں طالبان کے کنٹرول کے بعد افغان کسٹم حکام نے اپنی چوکیاں قندھار منتقل کر دی ہیں جہاں وہ پاکستان سے آنے والے مال پر ڈیوٹی وصول کر رہے ہیں۔

افراتفری اور کنفیوژن

پاکستان پہنچنے والے ڈرائیورز نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ افغانستان میں اس وقت افراتفری اور کنفیوژن ہے۔

پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر عمران کاکڑ نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ کراچی سے کپڑا لے کر قندھار جانے والے ٹرک ڈرائیور سے طالبان نے اسپن بولدک میں ڈیڑھ لاکھ (ایک ہزار ڈالر) وصول کیے۔

اُن کے بقول جب ٹرک قندھار پہنچا تو افغان حکومت کے اہل کار منتظر تھے اور اُنہوں نے طالبان کو ادا کی گئی رقم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس سے بھی زیادہ ڈیوٹی وصول کی۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتِ حال نوے کی دہائی کی عکاسی کر رہی ہے جب مختلف افغان وار لارڈز افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنا کنٹرول رکھتے تھے اور اُنہوں نے کئی اہم گزرگاہوں پر خود ساختہ قوانین بنا رکھے تھے۔

اُس دور میں بھی ان وار لارڈز کے علاقوں سے گزرنے پر گاڑیوں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق چمن میں بدھ کو سیکڑوں ٹرک افغانستان میں داخلے کے منتظر دکھائی دیے۔

چمن، اسپن بولدک کے چٹیل اور خاک آلود میدان پر ٹرک ڈرائیورز اور اُن کے ہیلپرز کی بڑی تعداد بھی افغانستان میں داخلے کے منتظر تھے۔

ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ سفر 60 میل پر محیط ہے لیکن اس سفر میں کئی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اُن کے بقول افغانستان کی طرف سڑکوں کی مناسب مرمت نہ ہونے سے جہاں حادثات کا خدشہ رہتا ہے وہیں پولیس اور فوج کی چیک پوسٹس پر اُن سے ‘چائے پانی’ یعنی رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے اس کے علاوہ راستے میں بعض اوقات لٹیرے بھی اُن سے رقم یا مال میں سے حصہ دینے کا کہتے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں ٹرک ڈرائیوروں کو طالبان اور فورسز کے درمیان جاری لڑائی کی زد میں آنے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔

عبدالرزاق نامی ڈرائیور نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ وہ چوزوں کا ٹرک لے کر قندھار جا رہے ہیں۔

اُن کے بقول وہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں لڑائی جاری ہے، لیکن روزگار کمانے کے لیے ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments