محمد رفیع: دنیا کا ’سب سے بڑا‘ پلے بیک گلوکار محمد رفیع جس نے فلمی گلوکاری ’ایجاد‘ کی

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


محمد رفیع

’ہم سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ محمد رفیع صاحب کو دنیا سے گئے اتنا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ان کے گائے گیت اور وہ سب کو یاد ہیں؟ میں انھیں کہتا ہوں کہ یاد تو اُسے کیا جاتا ہے جسے انسان بھول جائے لیکن ابا نہ صرف ہمارے دلوں میں دھڑکن کی طرح رہتے ہیں بلکہ وہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں اور جب تک دل زندہ ہے محمد رفیع زندہ رہیں گے اور دھڑکنوں میں دھڑکتے رہیں گے۔‘

یہ کہنا ہے برصغیر کے معروف گلوکار اور گیتوں کے بادشاہ محمد رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع کا جن کے والد کی آج سے 41 برس قبل سنہ 1980 میں جولائی کی 31 تاریخ کو وفات ہو گئی تھی۔

بی بی سی اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے شاہد رفیع نے کہا کہ ’ابا دنیا سے گئے نہیں ہیں، یوں لگتا ہے جیسے وہ ریکارڈنگ پر گئے ہیں اور ابھی تھوڑی دیر بعد شام تک وہ سٹوڈیو سے لوٹ آئیں گے تو پھر ہم سب گھر والے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور باتیں کریں گے۔‘

محمد رفیع کی برسی کے موقع پر ان کے گھر والوں، موسیقاروں، پرستاروں، ناقدین اور فلمی پردے پر ان کے ہیروز سے بات کی گئی۔

سب نے ان کے بیکراں فن کی مختلف جہتوں اور پرتوں پر روشنی ڈالی مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ محمد رفیع پس پردہ موسیقی کے شعبہ میں دنیا کے سب سے منفرد اور بڑے گلوکار ہیں۔

گلوکار طلعت محمود، محمد رفیع کے سینیئر تھے۔ لیکن محمد رفیع کے انتقال کے وقت وہ ان کے جسد خاکی سے لپٹ کر بین کر رہے تھے کہ ’پہلے تم نے میرا کریئر چھینا، اور پھر میرے حصے کی موت بھی چھین لی۔‘

محمد رفیع کی روح پرواز کر چکی تھی اور کشور کمار ان کے قدموں میں سر رکھ کر گھنٹوں تک روتے رہے تھے۔

مصنف اور نغمہ نگار جاوید اختر کہتے ہیں کہ محمد رفیع فلموں کے سب بڑے پلے بیک سنگر تھے اور وہ دنیا کے پہلے گلوکار تھے جنھوں نے پلے بیک سنگنگ کو پلے بیک سنگنگ بنایا۔

پہلے فلموں میں ان فنکاروں کو کاسٹ کیا جاتا تھا جو اداکاری کے ساتھ گلوکاری بھی کرتے تھے۔ نورجہاں اور کے ایل سہگل اس کی مثال رہے ہیں۔

خود محمد رفیع نے بھی اپنے کریئر کے آغاز میں سنہ 1945 میں فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ اور سنہ 1947 میں ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم ’جگنو‘ کے لیے گانے کے ساتھ اداکاری بھی کی تھی۔

جاوید اختر اپنے اس دعوے کہ ’محمد رفیع سب سے بڑے پلے بیک سنگر ہیں’ کے لیے دلیل یہ دیتے ہیں کہ محمد رفیع دنیا کے پہلے گلوکار ہیں جنھوں نے محسوس کیا کہ فلمی گائیکی اور محفل یا میوزک کنسرٹ میں واضح فرق ہونا چاہیے۔

’فلم کے لیے گایا جانے والا گیت کسی خاص کردار کے لیے ہوتا ہے۔ فلم میں اس کی مخصوص صورتحال ہوتی ہے۔ ہر اداکار کی اپنی شکل وشبہات، لب و لہجہ اور آواز کا ایک صوتی احساس ہوتا ہے جو اسے دوسروں سے الگ رکھتا ہے۔ رفیع صاحب نے فلمی گیت گاتے ہوئے یہ تمام جزئیات نہ صرف پوری کیں بلکہ سکرین پر ہر ہیرو کی آواز، حرکات اور انداز کا فرق بھی واضح کر دیا۔‘

100 سے زیادہ موسیقاروں کی دھنیں، 22 سے زیادہ زبانوں میں 25 ہزار گیت گائے

ایک اندازے کے مطابق محمد رفیع اپنے 36 سالہ کرئیر میں لگ بھگ 32 سال تواتر سے گاتے رہے۔ انھوں نے 100 سے زیادہ موسیقاروں کے بنائے ہوئے گیت گائے جو انڈیا میں بولی جانے والی 22 مقبول اور دنیا میں بولی جانے والی دیگر معروف زبانوں میں تھے۔

محمد رفیع نے 1979 میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اپنے کریئر میں 25 سے 26 ہزار گیت گائے ہوں گے مگر اس ضمن میں لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار گیتوں کا ریکارڈ ہی دسیتاب ہے۔

شاہد محمد رفیع نے ممبئی سے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ 31 جولائی کا دن تھا جب ابا کو صبح سوا دس بجے کے قریب ہارٹ اٹیک ہوا۔ شاہد کہتے ہیں کہ ان کے والد کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن رات دس بجے ان کی وفات ہو گئی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’عام طور پر وہ گھر میں پنجابی میں بات کیا کرتے تھے۔ ممبئی میں ابا کے ساتھ ہماری والدہ اور ہم بہن بھائی تھے۔ باقی سب رشتہ دار تو لاہور میں تھے جن میں دادا، دادی اور ابا کے بہن بھائی شامل تھے۔ اس لیے ہمارے گھر میں لاہور کی بات تو ہر وقت ہوتی رہتی تھی۔‘

شاہد رفیع نے بتایا کہ ان کے والد محمد رفیع امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند سے لگ بھگ 14، 15 برس قبل وہ اپنے والدین کے ساتھ امرتسر سے آ کر لاہور آباد ہوئے۔

برصغیر کے فلمی سنگیت کو سینکڑوں رنگ بخشنے والے محمد رفیع ایک فقیر سے متاثر تھے

شاہد رفیع بتاتے ہیں کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ کوٹلہ سلطان بازار میں ایک فقیر آیا کرتا تھا جو یہ گیت گایا کرتا تھا ’کھیڈن دے دن چار نی مایے، کھیڈن دے دن چار‘ (کھیلنے کے دن چار ہیں ماں، کھیلنے کے دن چار) اور اس فقیر کے گیت سن کر ابا کے دل میں بھی گانے کا شوق پیدا ہوا۔

‘میرے دادا حاجی علی محمد ایک دین دار آدمی تھے اور ابا کے دل میں گانے کا شوق پیدا ہو گیا۔‘

شاہد رفیع نے بتایا کہ محمد رفیع انتہائی سادہ مزاج اور عاجز انسان تھے۔ کوئی ان کی تعریف کرتا تو وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے کہ سب میرے رب کی مہربانی ہے۔

فلم ‘نصیب’ کے لیے رشی کپور اور امیتابھ بچن کے لیے لکشمی کانت پیارے لال نے امیتابھ بچن اور ابا (محمدرفیع) کی آوازوں میں گیت ریکارڈ کیا جس کے بول تھے ’چل چل میرے بھائی تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘

شاہد رفیع نے مذکورہ دو گانوں کے حوالے سے دلچسپ بات بتائی کہ اس شام محمد رفیع گھر میں داخل ہوئے اور سب بچوں کو اکٹھا کرکے کہنے لگے: ‘تمہیں پتہ ہے آج میں کس کے ساتھ گایا ہوں؟ ہم نے پوچھا کس کے ساتھ گائے ہیں، تو مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’آج میں امیتابھ بچن کے ساتھ گایا ہوں۔’

شاہد رفیع سے یہ بات سن کر ہمیں جو حیرانی ہوئی اس کی ڈگری غالب کی حیرانی سے بھی اوپر ہے جس کے لیے مرزا نے کہا تھا ’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔‘

بلاشبہ امیتابھ بچن بہت بڑے اداکار ہیں لیکن گائیکی کے میدان میں تو وہ محمد رفیع کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں۔

آشا بھوسلے کو اپنے منھ میاں مٹھو نہیں بننا چاہیے

انڈیا کی نامور گلوکارہ آشا بھوسلے جنھوں نے محمد رفیع کے ساتھ بے شمار گانے گائے انھوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’رفیع صاحب نے جو گیت شمی کپور کے لیے ریکارڈ کرانا ہوتا تھا اس موقع پر شمی کپور ہمیشہ موجود ہوتے تھے اور وہ رفیع صاحب کو بہت کچھ سکھاتے رہتے تھے کہ رفیع صاحب آپ یوں گائیے گا، آپ ایسے کیجیے گا وغیرہ وغیرہ۔’

وہ کہتی ہیں کہ فلم ‘کشمیر کی کلی’ کا وہ گیت ‘ہائے رے ہائے، میری جاں بلے بلے’ کے لیے شمی کپور نے رفیع صاحب کو جو کچھ بتایا تھا وہ ریکارڈنگ میں بھول گئے اور خاص ’ایکسپریشن‘ میں کہہ دیا جس پر شمی کپور ووکل روم میں آ گئے اور انھوں نے بڑا واویلا کیا۔

آشا بھوسلے کے اس بیان سے رفیع صاحب کے پرستاروں کو بڑا دکھ ہوا، اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر آنے والے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔

اس تنازع کے حوالے سے شاہد رفیع کا کہنا تھا کہا آشا بھوسلے اتنی سینیئر فنکارہ ہو کر کیسی بچوں والی باتیں کر رہی ہیں۔

’سینیئر فنکاروں کو اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی بجائے فیصلہ لوگوں پر چھوڑنا چاہیے کہ کس نے گانے کے ساتھ انصاف کیا ہے؟’

شاہد رفیع نے کہا کہ محمد رفیع سُروں کے ساتھ یوں کھیلتے تھے جیسے بچہ اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ ‘وہ رب کے بندے تھے اور ساری عمر جب بھی ان کی تعریف کی گئی تو انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ سب اس کا کرم ہے۔‘

محمد رفیع کو انڈیا رتن ایوارڈ کیوں نہ مل سکا؟

محمد رفیع کو انڈیا رتن کیوں نہ دیا جا سکا، اس سوال کے جواب میں شاہد رفیع نے کہا کہ محمد رفیع انڈیا رتن کے محتاج نہیں تھے وہ بذات خود ایک رتن تھے۔

‘یہاں سب جانتے ہیں کہ سرکاری ایوارڈز سیاستدان اور سرکار دیتی ہے۔ رفیع صاحب ان ایوارڈز کے محتاج نہیں تھے۔‘

انڈیا کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو محمد رفیع کے بہت بڑے فین تھے۔ محمد رفیع نے مہاتما گاندھی کی یاد میں لکھا یہ گیت ’سنو سنو دنیا والوں، باپو کی یہ امر کہانی‘ گایا تھا۔

راجندر کرشن کا لکھا یہ گیت گانے پر انڈین وزیر اعظم نہرو نے محمد رفیع کو سرکاری ایوارڈ سے نوازا تھا۔

نہرو لگ بھگ 17سال تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے اور اس عرصہ کے دوران متعدد مرتبہ سرکاری اور نجی محفلوں میں محمد رفیع نے پنڈت نہرو کو اپنا مدھر سنگیت سنایا۔

ایک تقریب میں جب محمد رفیع اپنا یہ گیت گا رہے تھے ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ تو پنڈت نہرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔‘ اس کے علاوہ ’چودھویں کا چاند ہو‘ اور ’سہانی رات ڈھل چکی نجانے تم کب آؤ گے‘ نہرو فرمائش کر کے سنا کرتے تھے۔

پنڈت جواہر لعل نہرو محمد رفیع پر بڑے مہربان تھے۔ ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ ’رفیع صاحب! میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘ اس پر محمد رفیع نے کوئی مالی فائدہ اٹھانے کی بجائے انھیں صرف اتنا کہا کہ ’آل انڈیا ریڈیو سے میرا نام ’رفیع‘ اناؤنس کیا جاتا ہے، جبکہ میرا پورا نام محمد رفیع ہے۔ براہ کرام حکم صادر فرمائیں کہ آئندہ میرا پورا نام لکھا اور پکارا جائے۔‘

یہ واقعہ ماضی کے معروف فلمی جریدے ‘شمع دھلی’ میں شائع ہو چکا ہے۔ تاہم اس ضمن میں شاہد رفیع نے بی بی سی اردو سے کہا کہ ابا کو اوپر والے نے عزت دی تھی تو شروع سے انھیں محمد رفیع ہی کہا گیا ہے۔

مکیش شریر اور محمد رفیع سنجیدہ تھے

میوزک ڈائریکٹر آنندجی (کلیان جی آنند جی) کے لیے محمد رفیع نے 170 گیت گائے اور ان کا پہلا گیت تھا ‘چاہے پاس ہو چاہے دور ہو۔‘

آنند جی نے بی بی سی اردو سے کہا کہ محمد رفیع پانی کی طرح ڈھل جاتے تھے۔ وہ جانی واکر سے لے کر دلیپ کمار اور انڈیا بھوشن سے لے کر گوندا تک سب کے لیے گاتے تھے۔

موسیقاروں میں کھیم چندر پرکاش، سری رام چندر اور نوشاد سے لے کر شنکر جے کشن اور ایس ڈی برمن کے بعد ہماری دھنیں بھی گاتے رہے اور ہمارے بعد میں آنے والے موسیقاروں کی دھنیں بھی کامیابی سے گاتے رہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا رفیع کو ان کا حق مل سکا؟

سلامت علی خان نے لتا منگیشکر کی شادی کی پیشکش کیوں ٹھکرائی

بڑا اداکار کون؟ دلیپ، راج یا امیتابھ۔۔۔

لسوڑی شاہ کا نصرت، نصرت فتح علی خان کیسے بنا

محمد رفیع نے 40 سال تک انڈسٹری میں کام کیا۔ وہ سنجیدہ اور نفیس انسان تھے جبکہ ان کے مقابلے میں کشور کمار، مکیش اور آشا بھوسلے کا انداز ہنسی مذاق اور ہلا گلا کرتے رہنا تھا۔ وہ اتنا لمبا عرصہ اس لیے کام کرتے رہے ایک تو وہ پیدائشی فنکار تھے۔ دوسرا وہ محنتی بہت تھے، تیسرا ان کی طبیعت میں لحاظ بہت تھا۔

محمد رفیع نے پیسے کے لیے نہیں اچھے کام کو اپنا ہدف بنائے رکھا جس کی وجہ سے ان کا نام آج بھی اوپر ہے۔

‘ریکارڈنگ پر گھر کی بنی چائے پی کر خوش ہو جاتے’

لکشمی کانت پیارے لال ( ایل پی) اور محمد رفیع کا ساتھ سب سے زیادہ فلموں اور گیتوں کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔

محمد رفیع نے اس موسیقار جوڑی کے لیے 369 گیت گائے جن میں 186 سولو گیت شامل ہیں۔ بی بی سی کے کرائے گئے سروے میں ‘بولی وڈ کے ہنڈرڈ آل ٹائم فیورٹ سونگز’ میں اول نمبر پر آنے والا محمد رفیع کا گایا گیت ‘بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے’ ایل پی کی کمپوزیشن ہے۔

پیارے لال نے بی بی سی اردو سے کہا کہ ’رفیع صاحب فرشتہ آدمی تھے اور وہ بڑے ہی نیک اور شریف انسان تھے اور کسی سے بھی بات کرتے تو ان کی نگاہیں نیچے رہتی تھیں۔‘

‘ان میں بچوں جیسے معصومیت تھی۔ مجھے یاد ہے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں گھر سے بنی الائچی والی چائے لاتے تھے۔ کبھی تھکے ہوتے تو لکشمی کانت کہتے رفیع صاحب چائے پی لیں اس کے بعد ریکارڈنگ کریں گے۔ اتنی سی سہولت پر ہی بچوں کی طرح خوش ہو جایا کرتے تھے۔ رفیع صاحب سے ہمارا ساتھ سنہ 1963 لے کر 1980 تک رہا۔’

پیارے لال نے بتایا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا آخری گیت بھی ہمارے ساتھ گایا تھا۔

سینیئر اداکار جتندر نے کہا کہ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ محد رفیع نے ان کے لیے بہت سے گیت گائے۔ ان کے گائے گیتوں میں میوزک، میلوڈی ایکسپریشنزاور ردھم سب کچھ ہوتا تھا۔ رفیع صاحب کی آواز ایکٹر کے ساتھ ساتھ سنیما میں بیٹھے فلم بینوں کی روح میں اتر جاتی تھی۔‘

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے جواں سال گلوکار اورموسیقار راجہ کاشف نے کہا کہ محمد رفیع کئی نسلوں کے فیورٹ ہیں۔

‘صرف اپنے گھر کی بات کروں تو میرے دادا اور والد کے بعد رفیع صاحب میرے بیٹوں کے بھی فیورٹ سنگر ہیں۔‘

کانگریس سرکار کی طرف سے کشور کمار پر پابندی لگانے میں محمد رفیع کا کردار

گلوکارہ اوشا تمتی نے فلموں کے علاوہ 20 سال تک محمد رفیع کے ساتھ سٹیج شوز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ان کے ہمراہ عالمی دورے بھی کیے۔

اوشا نے محمد رفیع کے حوالے سے بی بی سی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1975 میں جب کانگریس سرکار نے کشور کمار اور ان کے گیتوں پر آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن پر چلنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ کانگریس سرکار اس وقت کی پرائم منسٹر اندرا گاندھی کی پالیسیوں کی تشہیر کے لیے جلسے اور ریلیاں منعقد کر رہی تھی جس کے لیے کشورکمار نے زیادہ پیسے مانگ لیے تھے۔

جب یہ معاملہ بگڑا تو کشور کمار پر پابندی لگا دی گئی جس سے وہ بہت پریشان تھے۔ اوشا کہتی ہیں کہ اس موقع پر محمد رفیع نے کانگریس والوں سے بات کی اور پھر یہ پابندی اٹھائی گئی تھی۔

’کانگریس سرکار رفیع صاحب کا بہت احترام کرتی تھی اور اس کی وجہ پنڈت جواہر لال نہرو سے رفیع صاحب کا پیار اور احترام کا رشتہ تھا۔‘

محمد رفیع

اوشا نے بتایا کہ محمد رفیع کے ساتھ یورپ اور دیگر ممالک میں جہازوں اور گاڑی میں سفر کرنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

‘وہ ہمیشہ گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتے جبکہ میں اور بیگم بلقیس رفیع پچھلی سیٹ پر بیٹھتی تھیں۔ رفیع صاحب دوران سفر غلام علی اور مہدی حسن کی غزلیں شوق سے سنا کرتے تھے۔ رفیع صاحب دونوں غزل گائیکوں کی غزلیں سنتے ہوئے ساتھ گنگنایا کرتے تھے جس سے عجیب سماں پیدا ہو جاتا تھا۔‘

‘کیا جیسز کرائسٹ صرف تمہارے ہیں’

اوشا تمتی نے بتایا کہ ’رفیع صاحب کسی بھی مذہب اور کیمونٹی کے لیے چیئرٹی شوز کر دیا کرتے تھے۔‘

اداکارہ مالاسہنا جو مسیحی ہیں، نے اپنے علاقہ میں چرچ کی تعمیر کے لیے چیرٹی شو کرایا جس میں توقع سے زیادہ فنڈز اکٹھے ہو گئے۔ مالاسہنا نے خوش ہو کر محمد رفیع کو بلینک چیک دینے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ ’مالا! کیا جیسز کرائسٹ تمہارے ہی ہیں ہمارے نہیں؟ یہ چیک چرچ کے فنڈز میں شامل کرو۔‘

‘تیار رہو ستمبر میں ہم لاہور جائیں گے

اوشا نے انتہائی دکھی آواز میں انکشاف کیا کہ محمد رفیع 30 جولائی کو دنیا سے رخصت ہوئے اور اس سے صرف آٹھ دن پہلے 22 جولائی کی شام ان کا فون آیا تھا جس میں وہ بچوں کی طرح چہک رہے تھے اور کہا کہ تیار ہو جاؤ ہم پاکستان جائیں گے۔

‘انھوں نے کہا کہ ستمبر، اکتوبر کی ڈیٹس کسی کو نہ دینا ہم اپنے شہر لاہور اور پاکستان جائیں گے۔ یہ سنتے ہوئے میں نے ان سے کئی فرمائشیں کر دیں کہ صاحب وعدہ کریں آپ مجھے وہاں غلام علی، مہدی حسن اور نور جہاں سے ملوائیں گے۔‘

’رفیع صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہاں تمہیں سب سے ملواؤں گا لیکن اوپر والے کو منظور نہیں تھا اور صاحب صرف آٹھ دن بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے وہ دن بھولتا نہیں ہے جب طلعت محمود ان کا ماتھا چومتے ہوئے بار بار کہتے تھے۔

’محمد رفیع پہلے تم نے مجھ سے میرا کریئر چھینا اور اب تم نے میرے حصے کی موت بھی مجھ سے چھین لی۔‘

محمد رفیع نے بالی ووڈ کے نامور اداکاروں کے لیے بے شمار گیت گائے

یہ صلاحیت صرف محمد رفیع کی گائیکی میں ملتی ہے کہ وہ جب فلم ‘کوہ نور’ میں دلیپ کمار کے لیے ‘مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے’ گاتے ہیں کہ تو مکمل صوتی احساس ابھرتا ہے کہ یہ محمد رفیع نہیں دلیپ کمار گا رہے ہیں۔

دلیپ کمار کے لیے انھوں نے مجموعی طور پر 75 گیت گائے جنھیں بے پناہ مقبولیت ملی۔ اداکار دیو آنند کے لیے فلم ‘ہم دونوں’ کا وہ گیت ذہن میں لائیے کہ ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔‘

اس گیت کو گاتے ہوئے محمد رفیع کی آواز دیو آنند کی آواز بن گئی تھی۔ محمد رفیع نے دیو آنند کے لیے 97 گیت گائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔

کپور خاندان کے لیے تو محمد رفیع نے راج کپور سے لے کر شمی کپور، ششی کپور، رندھیر کپور اور رشی کپور کے لیے گایا ہے۔ راج کپور کے لیے انھوں نے ‘بازی کسی نے پیار کی جیتی یا ہار دی ‘ جیسے یادگار گیت گائے۔

اگرچہ راج کپور نے اپنی فلمی جوڑی گلوکار مکیش کے ساتھ بنائی مگر محمد رفیع نے ان کے لیے 32 گیت گائے جو برصغیر کی فلمی تاریخ کا ایک عظیم دستاویز ہے۔

محمد رفیع نے شمی کپور کی باڈی لینگویج، ڈانس اور اداکاری کے مخصوص انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے لگ بھگ 180 گیت گائے جو پلے بیک میوزک اور ایکٹنگ کے تال میل کی عمدہ مثال ہیں۔

ششی کپور کے لیے انھوں نے 121 گیت گائے۔ پہلی فلم کے لیے چھ گیت گائے جو سپر ہٹ ہوئے۔

ششی اور رفیع ملاپ سے ’لکھے جو خط تجھے‘ اور ’پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا‘ جیسے سدا بہار گیت سننے کو ملے۔

سبھاش گھئی کی فلم ’قرض‘ کے لیے رشی کپور پر محمد رفیع کے گائے گیت ’درد دل درد جگر دل میں جگایا آپ نے‘ کو گاتے ہوئے محمد رفیع نے اپنے اندر سے رشی کپور کو ان کی تمام خصوصیات کے ساتھ آڈیو ریکارڈ پر منتقل کیا۔

محمد رفیع نے جوبلی کمار کہلانے والے ہیرو راجندر کمار کے لیے 124 گیت گائے۔

ڈانسنگ ہیرو جتندر کے لیے انھوں نے 104 گیت گائے۔ چلبلے لہجے میں گایا رومانوی گیت کسے یاد نہیں ہو گا جس کی استھائی ہے ’بڑی مستانی ہے میری محبوبہ۔‘

سنجیو کمار نے فلم ’کھلونا‘ میں ایک ذہنی مریض کا کردار ادا کیا تھا جس کے لیے انھوں نے گیت ’کھلونا جان کر تم میرا دل توڑ جاتے ہو‘ گایا۔ مذکورہ گیت پلے بیک کی تاریخ کے ایک منفرد تجربے کے طور پر محفوظ ہے۔

طبع زاد کریکٹر ایکٹر اور نامور کامیڈین محمود نے اپنے کرئیر میں بیسیوں منفرد کردار ادا کیے جن کے لیے محمد رفیع نے لگ بھگ 85 سے زیادہ گیت گائے۔

محمود کے لیے گائے گیتوں کو ہی اگر سنا جائے تو یوں لگتا ہے محمد رفیع نے موسیقی کے آسمان پر سُروں اور رنگوں کی کہکشائیں سجائی ہیں۔

گرو دت کا سنیما انڈیا مین سٹریم سے کچھ الگ تھا اور ان کے لیے محمد رفیع نے 25 گیت گائے جس میں ان کا انداز اور آواز الگ سنائی دیتی ہے۔ دھرمیندر کے لیے انھوں نے 104 گیت گائے۔ اس کے علاوہ راج کمار کے لیے محمد رفیع نے 38 گیت گائے اور ان دونوں کی جوڑی بھی بے مثال رہی۔

مدن موہن کا کمپوز کیا گیت ’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘ اور میوزک ڈائریکٹر روی کا یہ گیت ’چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو‘ جیسے گیت تو کلاسکس کا درجہ رکھتے ہیں۔

بسوا جیت کے لیے انھوں نے ’پکارتا چلا ہوں میں‘ اور ’تمہاری نظر کیوں خفا ہو گئی‘ جیسے گیت گائے۔ محمد رفیع نے اپنے دور کے ہر قابل ذکر ہیرو، کریکٹر ایکٹر، کامیڈینز اور دوسرے کرداروں کو اپنی آواز بخشی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp