اڑتی کار یا اڑتی موت!


آج کل جدھر دیکھیے خبروں میں اڑتی کار کے تجربات کی خبر آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بی بی سی اردو کی اڑن کار کے تجربے کی خبر

بعنوان
ائر کار: اڑنے والی گاڑی کی دو ہوائی اڈوں کے درمیان ’کامیاب‘ آزمائشی پرواز
https://www.bbc.com/urdu/science-57661779.amp

اور ابھی اس اڑتی کار ایجاد ہونے کی ڈراؤنی خبر کی دہشت کم نہیں ہوئی تھی کہ اب اڑتی موٹر سائیکل کی آزمائشی پرواز کے مکمل ہونے کی خبر بھی آ گئی ہے۔

دیکھیے
https://urdu.arynews.tv/a-jet-turbine-powered-flying-motorcycle/amp/

آپ پوچھیں گے کہ ڈراؤنی کیوں؟ تو ہمیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اس حوالے سے سوال نہیں اٹھا رہا ہے کہ یہ اڑتی کاریں اور موٹرسائیکل اپنے سواروں اور نیچے زمین پر رہنے والے انسانوں، جانوروں، پرندوں اور جنگلات کے لیے موت کی سواری ثابت ہوں گے۔ اور ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس حوالے سے اس اڑتی کار یا سواری کو پانے کے جنون پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا رہا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے۔ تو سیدھی سی بات ہے کہ جس وقت تک کوئی حادثہ نہیں ہوتا، اس وقت تک تو سب ٹھیک رہے گا لیکن کوئی حادثہ ہونے کی صورت میں ایسی گاڑیوں کے سوار اور نیچے زمین پر موجود انسانوں، جانوروں، پرندوں اور جنگلات کے لیے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کے سواروں کے لیے پیرا شوٹ والی نشستوں کا انتظام ہوگا جن سے ہو سکتا ہے کہ سواروں کی جانیں بچ جائیں لیکن نیچے موجود افراد اور جانداروں کا کیا ہو گا؟ ان کو کون بچائے گا؟ یاد کیجئے کہ جب سن 2010 ء میں اسلام آباد میں دامن کوہ کے نزدیک طیارہ گرا تھا تو بارش ہونے کے باوجود قریبی جنگل میں آگ لگ گئی تھی۔ گو کہ بارش کی وجہ سے یہ زیادہ نہ پھیل سکی لیکن پھر بھی لگی تو تھی نا۔

اور ذرا سوچیے کہ جس وقت کوئی حادثہ نہ بھی ہو تو کوئی کسی اڑتی کار یا موٹر سائیکل کو اپنے سر پر سے گزرتا دیکھ کر کتنا خوفزدہ ہو گا کہ یہی دھڑکا لگا رہے گا کہ یہ کسی بھی وقت اس پر، اس کے پیاروں پر، اس کے بچوں کے سکول پر گر سکتے ہیں اور اس میں اس فرد کی کوئی غلطی یا قصور بھی نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ اس کا دوش دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس جگہ پر رہ رہا تھا کہ جہاں سے یہ کار گزر رہی تھی۔ لیکن یہ کاریں تو ہر جگہ سے گزریں گی، پھر انسان ان کاروں سے کوئی محفوظ جگہ پر کہاں رہائش اختیار کریں گے؟

اور پھر معاملہ صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں، پرندوں کا بھی ہے۔ اس وقت بھی ہوائی اڈوں کے ارد گرد پرندوں کی رہائش گاہیں اور ٹھکانے ختم کیے جاتے ہیں تاکہ جہاز کے اترتے اور پرواز بھرتے وقت اس کے انجن سے کوئی پرندہ ٹکرا کر حادثے کا باعث نہ بن جائے۔ لیکن اس سے پرندوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا کیوں کہ وہ عام طور پر انسانی گھروں کے قریب رہائش کے ٹھکانے بناتے ہیں۔ لیکن اب اگر ہر کسی کے اپنے گھر یہ اڑتی کار یا موٹر سائیکل آ کر اترے یا پرواز بھرے گی تو وہاں سے بھی ان پرندوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔

تو اب سوچیئے کہ چڑیا، مینا، بلبل، طوطے، کوے اور دیگر پرندے جو اپنی خوراک کے لیے انسانوں پر انحصار کرتے ہیں اور اس لیے انسانوں کے قریب رہائش اختیار کرتے ہیں، وہ کہاں جا کر رہائش اختیار کریں گے جبکہ انسان پہلے ہی ان کی قدرتی کمین گاہوں یعنی جنگلات کو مسلسل ختم کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان تمام خوبصورت ماحول دوست پرندوں کی نسلیں معدوم ہو جائیں گی یا کم ہو کر صرف چڑیا گھروں تک محدود ہو جائیں گی لیکن ان پرندوں سے عام انسانیت کو کیڑوں مکوڑوں کے خاتمے کا جو فائدہ پہنچتا ہے، وہ تو ختم ہو جائے گا۔

ابھی یہ کوئی زیادہ عرصہ پرانی بات تو نہیں ہے کہ چین میں ماؤزے تنگ کے حکم پر چڑیاں ختم کر دی گئیں اور جب احساس ہوا کہ ان سے فصلوں اور انسانیت کو کتنا زیادہ فائدہ ہو رہا تھا تو پھر پاکستان سے دوبارہ چڑیاں منگوائی گئیں۔ کیا ہر ایک انسان کے ذاتی اڑن گاڑی رکھنے کی خواہش اتنی زیادہ اہم ہے کہ اس ایک خواہش کو پورا کرنے کی خاطر انسانیت کو فائدہ پہنچانے والے اربوں پرندوں کی نسل کشی کر دی جائے؟

یہ بھی دیکھیں کہ ائر لائنز اپنے پائلٹوں کو تربیت دینے کے لیے کتنے جتن کرتی ہیں۔ ان کے لیے چند سو یا چند ہزار گھنٹوں کی تربیت لازمی قرار دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تربیت یافتہ عملے کی غفلت سے حادثات ہو جاتے ہیں۔ کتنی دفعہ ایسی خبریں آئی ہیں کہ پائلٹ نشے کی حالت میں جہاز اڑانے پہنچ جاتے ہیں۔ اور یہ ان ائر لائنوں کا حال ہے کہ جن میں سالانہ اربوں روپے حادثات سے تدارک کے طریقوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کراچی میں پی آئی اے کے طیارہ حادثے کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ طیارے کی دیکھ بھال صحیح نہیں کی گئی تھی۔ جنید جمشید کے طیارہ حادثے کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ طیارے کے انجن اچھی حالت میں نہیں تھے۔ اور ایک انجن اڑان بھرتے وقت نہیں چل رہا تھا۔

تو اگر اربوں روپے کے اخراجات کرنے کے بعد اتنے بڑے ادارے کے حفاظتی اقدامات کا یہ حال ہے تو ایک عام شہری جو کہ اپنی سواری کے حفاظتی اقدامات پر ہر ماہ چند ہزار یا چند لاکھ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے، اس سے کیسے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان ہی حفاظتی معیارات پر عمل درآمد کر سکے گا کہ جن پر بڑی بڑی ائر لائنز عمل پیرا ہوتی ہیں۔ ؟ یہ بھی یاد رہے کہ حادثے کی صورت میں ائر لائنز کو لاکھوں نہیں، اربوں کے جرمانوں اور ورثاء کو خون بہا کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔

اب اگر کسی عام شہری کی اڑن کار کی وجہ سے کسی سکول یا عمارت میں ایک بڑا حادثہ ہو گیا تو اس کی تلافی کون سی انشورنس کمپنی کر سکے گی اور کتنی کرے گی۔ اس وقت ائر لائنز کے حادثات کی تعداد چند حادثات سالانہ ہوتے ہیں تو ہر حادثے کے بعد ایک واویلا سا مچ جاتا ہے کہ کیوں ہوا، لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی بھی اچھی خاصی ہوتی ہے اور ائر لائنز کو بھی سبق مل جاتا ہے کہ انہیں آئندہ کے لیے احتیاط کرنی ہے۔ لیکن اگر ہر روز اڑن کاروں کے حادثے ہونے لگیں تو کتنی انشورنس کمپنیاں ایک طیارے کے حادثے کے برابر معاوضہ ادا کر نے کی سکت رکھیں گی؟

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ اڑن گاڑیاں مکمل طور پر خود کار ہوں گی تو ذرا کچھ عرصہ پہلے خود کار گاڑیوں کا حادثہ ہونے کی وجہ سے ہلاکت کی خبر گوگل پر ڈھونڈ لیجیے۔ پھر یہ کہ عام گاڑی کا انجن خراب ہونے کی صورت میں وہ سڑک کنارے بند ہو جاتی ہے لیکن یہاں تو انجن خراب ہو جانے کی صورت میں گاڑی دھڑام سے نیچے راہ گیروں پر جا گرے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ گاڑی کے ساتھ بھی پیراشوٹ منسلک ہوگا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بروقت کھل پائے گا؟ اور گاڑی میں آگ لگ جائے تو اس صورت میں زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ آگ کے شعلوں کی نذر ہو چکا ہوگا۔ گاڑی کے زمین پر گرنے کی صورت میں بھی اس کے اندر موجود ایندھن یا بیٹری کی وجہ سے اس کے اردگرد آگ بھڑک سکتی ہے جس سے بے گناہ راہ گیروں یا جنگلات کا نقصان ہو سکتا ہے۔

رہ گئی یہ دلیل کہ اگر اڑن کاریں ہوں گی تو اس سے ٹریفک جام ہو جانے کی شکایتیں ختم ہو جائیں گی تو اگر اڑن کاروں کے حوالے سے آپ فلموں مثلاً بیک ٹو دا فیوچر ”سے متاثر ہو رہے ہیں تو ذرا“ بیک ٹو دا فیوچر پارٹ ٹو ”کا وہ منظر یاد کیجئے کہ جب ریڈیو پر اعلان ہوتا ہے کہ تمام ہوائی سڑکیں گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے جام ہیں۔ تو اگر آپ اڑن کاروں کے حوالے سے فلموں سے متاثر ہو رہے ہیں تو انہی میں بیان کیے اس کے منفی پہلو پر بھی توجہ دیجئے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس شہری کا کیا قصور ہے کہ جو کہ اپنے گھر یا دفتر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہے اور اچانک ہی اس کے گھر یا دفتر پر یہ اڑن کار آ گرے۔ اس کو تو خبر بھی نہیں ہو گی کہ کار کہاں سے آ رہی ہے۔ اب کیا ہر عام شہری اپنے گھر یا دفتر کی عمارت پر ریڈار اور ایک آپریٹر لگوائے گا جو کہ اسے کسی گرتی ہوئی کار کے حوالے سے انتباہ کر سکیں کہ وہ بر وقت اپنے گھر یا دفتر سے باہر نکل سکے۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بروقت گھر/ دفتر سے نکل پائے گا۔

کیونکہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ طیارہ اڑتے یا اترتے وقت حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا ریڈار بر وقت خبر دار کر پائے گا یا خبرداری کی صورت میں کسی دفتر یا گھر کے مکینوں کو اتنی مہلت مل پائے گی کہ وہ وقت پر باہر نکل سکیں۔ اور اپنے گھروں سے باہر راہ چلتے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کو کیسے خبردار کیا جا سکے گا؟ کیا وہ کسی محفوظ جگہ پر بروقت پناہ لے پائیں گے؟

اس وقت اس سے ملتا جلتا اسرائیل کا آئرن ڈوم نظام ہے جو حماس کے میزائل حملوں سے خبردار کرتا ہے۔ لیکن ایک تو یہ کہ وہ غزہ کی پٹی کے انتہائی قریب کی اسرائیلی بستیوں میں رہنے والوں کو بروقت خبر دار نہیں کر پاتا اور اگر وہ خبردار کر دیتا ہے تو لوگوں کے پاس محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ کم تعداد میں سہی، اسرائیلی ہلاکتیں ضرور ہوتی ہیں۔ پھر آئرن ڈوم نظام پر یہ تنقید بھی ہوتی ہے کہ اس سے جانیں تو بچ جاتی ہیں لیکن ہر وقت حملہ ہونے کا خوف لوگوں خاص طور پر بچوں کی نفسیات پر بہت برا اثر ڈالتا ہے۔

اسی لیے بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے اسرائیلی حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کو آزادی دے دی جائے تاکہ راکٹ گرنے کے خوف سے لوگوں کو نجات ملے۔ یہ تو ہر چند سال بعد چند دنوں کے لیے ایسی لڑائی ہوتی ہے۔ تو لوگوں کی یہ ذہنی حالت ہوتی ہے۔ یعنی اگر ایسا نظام اڑتی کاروں کے حوالے سے نصب کیا جائے تو بھی کچھ نہ کچھ بے گناہ ہلاکتیں ضرور ہوں گی۔ اب جتنا یہ اڑن گاڑیاں زیادہ تعداد میں ہوتی جائیں گی، حادثات اور ہلاکتوں کی تعداد میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اب ذرا سوچئے کہ ہر وقت دن کے چوبیس گھنٹے، سال کے تین سو پینسٹھ دن آپ کو یہی خدشہ لاحق رہے کہ کوئی اڑن کار آپ پر یا آپ کے پیاروں پر اچانک کہیں سے بھی آن گرے گی تو ذرا سوچیئے کہ آپ کی کیا ذہنی حالت ہوگی؟ کیا آپ ایسی حالت میں زندگی کے کسی دوسرے مسئلے پر توجہ دے پائیں گے؟

اب تک اگر آپ اس تحریر کو پڑھتے آئے ہیں تو آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بندہ تو طرز زندگی میں جدت آنے سے بہت بے زار ہے۔ تو نہیں، ایسی بات نہیں۔ ہمارے پاس ان اڑتی کاروں کا ایک بہترین متبادل موجود ہے اور اس کا نام ہے ”میگ لیو“ ٹرین۔ یعنی مقناطیس کے ذریعے چلنے والی ٹرین۔ اور یہ وہ ٹیکنالوجی ہے کہ جس سے آواز کی رفتار سے تو کیا، روشنی کی رفتار سے بھی تیز چلنے والی ٹرینیں بنائی جا سکتی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے یہ خبر آئی ہے کہ چین نے ایسی میگ لیو ٹرین بنائی ہے جو چھ سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یعنی یہ ٹرین ایک ہوائی جہاز کی رفتار آٹھ نو سو کلو میٹر فی گھنٹہ سے ایک تہائی ہی کم ہے اور جس رفتار سے اس میں جدت آ رہی ہے تو وہ دن دور نہیں جب یہ رفتار میں ہوائی جہاز کو مات دے گی۔ اس قسم کی ٹرین کا صرف ایک ہی حادثہ جرمنی میں ہوا ہے جس میں انسانی غلطی وجہ تھی۔ اس ٹرین کو زیادہ سے زیادہ خود کار نظاموں سے منسلک کر کے اور ڈرائیور کا کام محض آن آف تک محدود کرنے سے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ اور اگر اس کا حادثہ ہو بھی جائے تو اس میں سوار افراد ہی ہلاک یا زخمی ہوں گے۔ اردگرد کے بے گناہ راہ گیروں، جانور، پرندوں، جنگلات اور دیگر حیات کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ نہ ہی انہیں ہر وقت اپنے گھر، دفتر یا سکول میں اس ٹرین کی وجہ سے جانی نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments