عورتوں کو ہراساں کرتے ہوئے مردوں کی عزت خراب نہیں ہوتی؟



ہم ایک ایسے ظالم اور بے حس معاشرے میں زندہ ہے جس کی فضا مظلوم اور بے قصور خواتین اور بچوں کے خوں سے آلودہ ہے۔ اس تعفن زدہ ماحول میں زندگی سسکیاں لے رہی ہے۔ زندگی کی قیمت خون کے بدلے دی جاتی ہے۔ شکاری تاک لگائے بیٹھا ہے اور شکار کو جال میں پھنسانے کے لئے تیار ہے۔ شکار صدیوں سے زخم خوردہ اور خون آلودہ ہے پر شکاری ہر وقت میں نئے انداز کا جال بنتا ہے۔ اور شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہر دفعہ شکاری کے ظلم پر فضا نوحہ سنتی ہے۔

ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے لیکن نہ تو شکاری کا راستہ روکا جاتا ہے اور نہ ہی شکار سبق پکڑتا ہے۔ اور یہ خونی اور عزتیں تار تار کرنے کا مکروہ کھیل پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ پاکستان میں عورتیں اور بچے دونوں محفوظ نہیں ہے اور انسان نما جانوروں کی درندگی کا شکار بنتے رہتے ہے۔ کچھ دنوں خبر میڈیا کی زینت بنتا ہے جیسے ہی کوئی نئی سنسنی خیز اور زیادہ بکنے والی خبر آتی ہے تو یہ واقعات پس پشت میں چلے جاتے ہے۔ لہٰذا بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کو ہمیشہ بیچا گیا ہے کچھ عرصے کے لئے ایک بھونچال برپا ہوتا ہے لیکن نہ تو ارباب اختیار اور نہ ہی قانون ساز اداروں اور نہ ہی عدالتوں کے کانوں پر جو رینگتی ہے۔

دیگر مسئلوں کی طرح اس احساس انسانی مسلے پر بھی یہ لوگ لمبی تان کر سو رہے ہے۔ سوشل میڈیا کے دباؤ میں ایک دو نوٹس لئے جانے کے بیانات بھی داغ دیے جاتے ہے۔ حال میں ہی یکے دیگرے بعد ہونے والے جنسی تشدد اور اور اس کے بعد قتل کی واردات نے ہر زی رو انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور ان مظالم کی داستان کی وجہ کئی راتیں آنکھوں میں کٹ گئی ہے پاکستان عورتوں کے لئے ایک غیر محفوظ جگہ بنتا جا رہا ہے۔ خواتین نہ تو گھر میں محفوظ ہے اور نہ ہی گھر سے باہر ان کی زندگی اور عزت محفوظ ہے۔

ہر خاتون اور ماں غیر یقینی اور خوف کی صورتحال کا شکار ہے۔ اور یہ سوچ پنپتی جا رہی ہے کیا پتہ اگلا شکار وہ یا ان کا بچہ نہ ہو۔ خواتین کو ہراساں کیا جانا تو انتہائی ایک عام بات یا پھر ایک روزمرہ کا معمول کہا جا سکتا ہے۔ کسی بھی کام سے گھر سے باہر جانے والی خواتین کو گھورنا ان پہ جملے کسنے اور ان۔ کو چھو کر ہراساں کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ ہجوم والے بازار میں میں خاص کر خواتین مرد کے اس مکرو کھیل کا شکار بنتی ہے۔

ایک خاتون نے مجھے بتایا ایک بچپن میں جب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ بازار جاتی تھی تو اس کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تھا اکثر اس کے کولہوں کو ہاتھ لگا کر مرد گزرتے تھے تب وہ سات یا آٹھ سال کی تھی اس کا بتانا تھا اس کے بعد خوف سے وہ کئی سال بازار نہیں گئی۔ ایسی کئی معصوم چھوٹی لڑکیاں ہو گئی جو ایسی صورت حال کی وجہ سے اپنا بچپن خوف کے سپرد کر چکی ہو گئی۔ جسمانی تشدد سے گزارنے والے بچوں اور خواتین کی ذہنی صحت ابتر ہو گئی ہوتی ہے۔

جاب کرنے والی خواتین کو روز اس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ان کے کام کی جگہ ہرگز ان کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ خاتون ہونے کی وجہ سے صنفی تعصب اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ہے۔ گھر میں رہنے والی عورت بھی ذہنی اور جسمانی تشدد سے محفوظ نہیں ہے۔ باپ بھائی شوہر ساس سسر اور نند ایک دوسرے سے جڑے یہ رشتے زندگی کو آسان کرنے کی بجائے مشکل تر بنا دیتے ہے۔ اور اپنے ہی آپ کو آہستہ آہستہ موت کے راستے کی طرف دھکیل دیتے ہے۔

ابھی حال میں ہی ایک ساتھ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ظلم اور بربریت کے واقعات نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ خواتین اور بچوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد میں عالمی سطح پر پاکستان کا چھٹا نمبر آیا ہے۔ گزرے سال میں ایک ہزار خواتین کو نام نہاد عزت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ اور اسی خواتین صرف لاہور میں قتل کی گی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے مرد کی عزت کو عورت سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے۔ اور یہ عزت کھانا لیٹ ہونے یا پھر پسند کا کھانا نہ ملنے پر عورت کے اپنی مرضی کے لباس پہنانے پر مرضی کی شادی کرنے اور کسی بات پر اپنی رائے دینے یا اور نوکری کرنے پر خراب ہو جاتی ہے۔

اور اس نام نہاد عزت کے لئے یا تو عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اگر مرد کا شملہ بہت اونچا ہو تو عورت کو زندگی سے آزاد کر کے اس شملہ کو بلندی کی معراج پہنچایا جاتا ہے۔ اور اس ظلم کو انجام دینے کے بعد سینہ ٹھونک کر اور گردن اکڑا کر چلا جاتا ہے۔ یہ سب وہ مرد کرتا ہے جو خود اخلاقی پستی میں گرا ہوتا ہے۔ جو ماں کو بے عزت کرتا ہے بیٹی کو بوجھ کہتا ہے اور بیوی کو کم عقل اور گالی دیے بغیر بلاتا نہیں ہے۔ عورت کو سات پردوں میں چھپنے کا کہنے والے کے قدم کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھتے ہے۔ جو خود تو شرابی اور زانی ہے لیکن عزت اس کی عورت کے سوال کرنے پر خراب ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments