’میاں کلچر‘

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


پچھلے سال سوا سال میں کووڈ کی وجہ سے گھر میں بیٹھ بیٹھ کر سوشل میڈیا پہ جھک مارنے کی عادت پختہ تر ہو تی جا رہی ہے۔ ابھی کل کی بات لے لیجیے بے چاری صدف کنول نے کہہ دیا کہ میرا شوہر میرا کلچر ہے اور اس کے بعد اس نے اس ’کلچر‘ کی تفصیلات پہ روشنی ڈالی۔ علم تہذیب کے ماہر کہتے ہیں کہ کلچر، ہر چالیس میل پہ تبدیل ہو جاتا ہے،اس لیے کلچر کے ذکر پہ اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔

دوسری بات یہ کہ مجھے تو اس تمام بیان میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں لگا۔ کیا جو کچھ اس اداکارہ نے کہا وہ پاکستان کے ننانوے اعشاریہ نو فیصد گھروں میں سچ مچ نہیں ہو رہا؟

میرے ایک جاننے والے جو دیکھنے اور بات کرنے میں بہت مہذب لگتے ہیں ایک روز بتانے لگے کہ میری بیٹی خیر سے چار برس کی ہو گئی ہے اور ماں نے اس کی اتنی اچھی تربیت کی ہے کہ میں گھر آتا ہوں تو میری چپل لے کے آتی ہے اور اپنے منے منے ہاتھوں سے میرے جوتے اتارتی ہے۔

ہر گھر میں بیوی کو واقعی پتا ہوتا ہے کہ شوہر کی کیا چیز کہاں ہے اور شوہر کو بیوی کا پتا نہیں ہوتا۔ یہ لاعلمی اس حد تک ہوتی ہے کہ بیوی کی سالگرہ، اس کے میکے سے دی گئی دعوت کا دن، بیوی کا پسندیدہ رنگ، سب کچھ طاق نسیاں پہ دھرا رہتا ہے۔

’میرا تولیہ، میرا بنیان، میرا شیمپو،میرا شیو کا مگ، میرے موزے، میری ٹائی، میرا بٹوہ، میرا کریڈٹ کارڈ، میرا یہ میرا وہ، کہاں ہے؟‘ یہ ہر گھر سے ناشتے کے ساتھ بلند ہونے والی آوازیں ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ پہ نہیں ہوتیں۔

ننانوے فیصد گھروں میں یہ تمام سامان رات ہی کو جگہ پہ رکھ دیا جاتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ گھڑی میز پہ ہو گی، چشمہ آنکھوں پہ، ٹائی الماری میں لٹک رہی ہوگی، بٹوہ دراز میں ہو گا، دونوں موزوں کو گرہ لگا کے ساتھ ساتھ رہنے کی سخت تاکید کی گئی ہو گی لیکن صبح آٹھ سے ساڑھے آٹھ کے درمیان یہ سب چیزیں سلیمانی ٹوپی اوڑھ لیتی ہیں اور وہیں رکھے رکھے نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔

کھانے کا یہ ہے کہ موسمی سبزیاں چند ایک ہی ہوتی ہیں اور ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں۔ ایک سبزی دہرا لی جائے تو بتا دیا جاتا ہے کہ یہ سبزی طبیعت کے موافق نہیں اور اس بات کا کیا کیا جائے کہ اکثر ‘ میاں’ کو سبزیاں پسند نہیں ہوتیں اور نہ ہی دال۔ ہمارے پنجاب میں بیف پہ بھی ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے اور برائلر مرغ سے بھی کچھ ذاتی دشمنی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

گھر کے مختصر بجٹ میں روز بکرا پکانا ناممکن ہے لیکن یہ بنیادی معاشی مسئلہ اس وقت نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے جب میز پہ سادہ کھانا نظر آتا ہے۔

‘ میاں’ کا دل دکھ جاتا ہے کہ دن رات گدھے کی طرح کمانے کے بعد، یہ کھاؤں؟ روٹی کے کنارے اتارنا، کھانے میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہونے کی شکایت کم کرنا، اس کھانے کی وجہ سے کلیجہ جلنے، معدے میں تکلیف ہو جانے، بادی کا مسئلہ ہو جانے وغیرہ کا ذکر بھی کھانے کے معمولات میں شامل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کو بگاڑ دینے کا الزام، فضول خرچی کا طعنہ، میاں کی خدمت نہ کرنے کا بہتان ایک مسلسل بڑبڑاہٹ کی صورت میں ایسے سنائی دیتا ہے آج کل کے ڈراموں میں بے موقع او ایس ٹی سنایا جاتا ہے۔

یہ تو ہوا معمول ،اس کے علاوہ دوستوں کے سامنے بیویوں پہ بنے لطیفے سنا سنا کے ہنسےجانا۔ ہر آئے گئے کے سامنے مذاق مذاق میں دوسری شادی کی حسرت کا اظہار کرنا۔ شادی کر کے پھنس گیا یارو، الاپنا ۔ تم میری ماں کو امی کیوں نہیں کہتیں؟ اس گھر کو اپنا گھر سمجھا ہی کب ہے، دل تو میکے ہی میں پڑا ہے،یہ سب ویک اینڈ پہ کیا جاتا ہے۔

اب ایک اور چیز بھی ہمارے متوسط طبقے کے ‘میاں کلچر‘ میں شامل ہو گئی ہے اور وہ ہے گرمیوں کی چھٹیوں کی سیر۔ اس سیر کے دوران، پہلے ٹول پلازہ سے لے کر منزل مقصود تک ہر وہ چیز پوچھی جاتی ہے جو ایک کار کی ڈگی میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے۔

منزل پہ پہنچ کے ایک زوردار لڑائی ہوتی ہے جس میں سفر کے اخراجات گنوائے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ زوجہ محترمہ اور ان کی اولاد کو پالنے میں زندگی برباد ہوگئی۔

بقیہ سفر یہ پوچھتے گزرتی ہے، ‘منہ کیوں بنا ہوا ہے؟’ اور واپس آکر اگلے برس تک یہ ہی کہا جاتا ہے’ تمہارے لیے کچھ بھی کر لو، تم نے خوش نہیں ہونا۔’

صدف کنول نے جس ‘میاں کلچر’ کی طرف اشارہ کیا وہ یہ ہی کلچر ہے۔ یہ کلچر وہاں ہوتا ہے جہاں میاں بیوی میں بہت محبت ہوتی ہے۔ محلے خاندان والے ان کی مثالیں دیتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے میاں کو ‘زن مرید’ بھی کہتے ہیں۔

اب ایسے حالات میں ایک ایسی اداکارہ جس کے ٹارگٹ آڈینس اسی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرے تو کیا کرے؟

جو بات سننے میں اتنی ناگوار لگی جب کچھ لوگ وہ سب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سب ان کا فرض ہے تو شاید غلط کہتے ہوں لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا کلچر ہے تو درست کہتا ہے، بلکہ میرا خیال ہے مارچ سے پہلے ایک کلچرل کانفرنس بھی ہونی چاہیے۔ جس میں ‘میاں کلچر’ کے اہم پہلوؤں پہ روشنی ڈالی جائے تاکہ وہ لوگ جو آج صدف کی بات پہ سیخ پا ہورہے ہیں اس کلچر کو اچھی طرح سمجھ سکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).