جیانگ میڈم ماؤ: چین کی حالیہ تاریخ کی طاقتور ترین خاتون کا عبرت ناک انجام


جیانگ

جیانگ اپنی نوجوانی میں اداکارہ بننے کی دھن میں مبتلا رہیں

وہ غریب پیدا ہوئیں۔ وہ ایک شرابی بڑھئی اور اس کی لونڈی کی، بغیر شادی کے پیدا ہونے والی اولاد تھیں۔ ان کا فلمی دنیا کا چمکتا دمکتا ستارہ بننے کا خواب تو پورا نہ ہو سکا لیکن وہ اپنے عہد کی ایک طاقت ور ترین شخصیت بن گئیں۔

وہ سیاسی طور پر ایک ایسی طاقت ور ترین شخصیت بنیں جس سے بڑے بڑے رہنما اور فوجی جنرل بھی گھبراتے تھے۔ اتنے مشکل حالات میں پیدا ہونے کے باوجود یہ ان کا مقدر ہی تھا جس نے انھیں چین کی سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے دہشت ناک خاتون بنا دیا۔

یہ کہانی ہے چنگ جی جیان کی جنھیں چیانگ چینگ بھی کہا جاتا ہے اور جنھیں مغربی دنیا ‘جیانگ’ میڈم ماؤ کے نام سے جانتی ہے۔

جیانگ سنہ 1914 میں لی شو مینگ کے نام سے پیدا ہوئیں تھیں، لیکن زندگی بھر وہ مختلف تخلص اور القابات اختیار کرتی رہیں۔

بچپن میں، انھوں نے خود کو لی یونہی (بادلوں میں کرن) کہلوایا اور ایک کمیونٹی تھیٹر گروپ میں اداکاری بھی کرنا شروع کی۔

اپنی نوعمری میں ہی انھوں نے ایک سوداگر سے شادی کی، لیکن صرف چند مہینوں ہی میں انھوں نے طلاق لے لی اور چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے ایک کارکن کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا اور اس تعلق کے توسط سے وہ کمیونسٹ جماعت کی رکن بھی بن گئیں۔

سی سی پی (چین کی کمیونسٹ پارٹی) جس نے چند دن قبل ہی اپنے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر یوم تاسسیں کا جشن منایا ہے، اُس دور میں حکمران چین کی نیشنلسٹ پارٹی (کوومینتانگ) کے جبر کا شکار تھی اور زیر زمین سرگرم تھی۔

بیس سال کی عمر میں وہ اداکارہ بننے کی خواہش کو دل میں لیے شنگھائی منتقل ہو گئیں جو اُس وقت ایک بڑا شہر تھا اور ‘پرل آف ایسٹ’ یعنی مشرق کے موتی کے نام سے مشہور تھا اور جو چین کی فلمی صنعت کا مرکز بھی تھا۔

جیانگ

ایک فلمی رسالے کے سر ورق پر ان کی تصویر جو 1930 میں شائع ہوا جب وہ لین پنگ کے فلمی نام سے پہچانی جاتی تھیں

سنہ 1934 میں شنگھائی پہنچنے کے چند ہی مہینوں میں انھیں کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہونے کی پاداش میں قید کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود اداکارہ بننے کی ان کی خواہش زندہ رہی۔ رہائی پانے کے بعد انھوں نے اپنا سٹیج کا نام لین پنگ (بلیو ایپل) رکھ لیا اور اپنے آپ کو بالکل بدل لیا۔

انھیں ابیسن کے ڈرامے ‘کاسا ڈی میوکاس’ میں نورا کا مرکزی کردار ملا اور اس کے علاوہ انھوں نے چند اور ڈراموں میں اہم کردار ادا کیے لیکن وہ بڑے فلم سازوں کو متاثر نہ کر سکیں اور انہی بڑے فلم سازوں کے انکار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فلمی دنیا میں ان کے راستے بند ہو گئے۔

اس دوران وہ ہدایت کار اور اداکار تانگ نا سے محبت کا شکار ہو گئیں اور انھوں نے شادی کر لی تاہم جلد ہی انھوں نے 1937 میں طلاق لے لی۔

آسٹریلیوی مورخ راس ٹیرل نے ‘میڈم ماؤ: دی وائٹ بونڈ ڈیمن‘ (سیفد ہڈیوں والی بلا: میڈیم ماؤ) کے عنوان سے ان کی سوانح عمری میں لکھا کہ ماؤ سے شادی سے قبل شنگھائی میں قیام کے دوران انھوں نے امرا کی طرز پر ایک عیاش زندگی گزاری۔

اداکار تانگ کے ساتھ ہنگامہ خیز اور تلخ ازواجی رشتے کے دوران وہ کافی بدنام ہوئیں جسے وہ اپنی آئندہ زندگی اور خاص طور پر جیانگ کنگ (سبز دریا) کے نام سے کمیونسٹ پارٹی میں رکنیت اختیار کرنے کے بعد مٹانے کی کوشش کرتی رہیں۔

ماؤ اور جیانگ

ماؤ کی ملاقات جب جیانگ کنگ سے ہوئی تو وہ عمر میں ان سے 21 سال بڑے تھے

کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بعد انھوں نے ایک ایسی سنجیدہ اور شرمیلی لڑکی کا روپ اختیار کر لیا جس سے کمیونسٹ پارٹی کے رہنما محبت میں مبتلا ہو گئے۔

زندگی میں تبدیلی

جیانگ کی ماؤ سے ملاقات ملک کے شمالی شہر یہان میں ہوئی جہاں ملک کے جنوب کی جانب لانگ مارچ کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ہیڈ کواٹر بنا دیا گیا تھا۔

شنگھائی پر 1937 میں جاپان کے حملے کے بعد اداکارہ جیانگ نے کمیونسٹ پروپیگنڈا فلموں میں کام کرنے کی غرض سے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اُن ہی فلم سازوں نے جنھوں نے شنگھائی میں انھیں کام دینے سے انکار کر دیا تھا ایک مرتبہ پھر ان کو مسترد کر دیا۔

ان کی سوانح حیات لکھنے والے کئی مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان لڑکی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤ سے ملاقاتیں اور عوامی خطبات کے دوران ان کی توجہ دونوں حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

ان ملاقاتوں اور خطبات میں جیانگ ہمیشہ اگلی نشستوں پر موجود رہتیں اور پارٹی رہنما سے پرجوش انداز میں سوالات پوچھتیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتیں۔

اس تعلق کو دیگر کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ ایک تو اداکاری کے پیشے کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے تھے دوسری طرف ماؤ پہلے سے شادی شدہ تھے اور جیانگ سے تقریباً دگنی عمر کے تھے۔

چین کا روایتی سٹیج ڈارمہ

ماؤ کی تیسری بیوی جن سے ان کے چھ بچے ہوئے وہ علاج کی غرض سے عارضی طور پر سوویت یونین میں مقیم تھیں۔ ماؤ کی پہلی شادی جو ان کے والدین نے کی تھی، وہ کچھ عرصے بعد ہی ختم ہو گئی جس کے بعد انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کی ایک رکن سے شادی کی جنھیں چین کی حکمران جماعت نیشنلسٹ پارٹی نے ہلاک کر دیا۔

چند تاریخی روایات کے مطابق جیانگ کے حاملہ ہونے کا اعلان کرنے سے پہلے کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ماؤ کے اپنی بیوی کو طلاق دینے اور جیانگ سے شادی کرنے پر متفق ہو گئی تھی۔

تاہم کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے ماؤ کو چوتھی شادی کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ ماؤ کی چوتھی بیوی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شرط 20 سال کے لیے تھی۔

سکریٹری سے لے کر سینسر تک

متعدد مورخین کے مطابق اس جوڑے نے اس شرط کی مکمل پابندی کی اور جیانگ پس پردہ رہنے لگیں۔ وہ اپنے شوہر کی ذاتی سیکریٹری کے طور پر کام کرنے اور اپنی بیٹی لی نا کی پرورش پر توجہ دینے لگیں۔ اس دوران ماؤ کی اپنی جماعت پر گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔

ایک دہائی بعد، آخر کار خانہ جنگی میں کمیونسٹ غالب ہو گئے، اور یکم اکتوبر 1949 کو انھوں نے ماؤ کی سربراہی میں عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی بنیاد رکھی۔

دیگر کمیونسٹ رہنماؤں کی بیویوں کے برخلاف انھیں تقریبات میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی انھیں باقی خواتین کی طرح پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں بھی کردار ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس وقت چینی رہنما کی مترجم امریکی صحافی سڈنی رتن برگ نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں بتایا کہ جیانگ اس بات سے سخت ناراض ہوئیں لیکن انھوں نے کئی برس تک اپنے غصے کو چھپا کر رکھا۔

اگرچہ ماؤ نے روایتی چینی زرعی معیشت کو پوری رفتار سے صنعتی بنانے کی کوشش کے لیے لیبر بریگیڈ اور اجتماعی فارموں کو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ سنہ 1950 کی دہائی کا بیشتر حصہ جیانگ نے علاج کی غرض سے ماسکو کے چکر لگاتے ہوئے گزارا۔

صحت یاب ہونے کے بعد جیانگ نے فنونوں لطیفہ اور خاص طور پر تھیٹر اور فلموں کی نگرانی کے لیے مامور سرکاری کمیٹیوں میں معمولی عہدوں پر کام کرنا شروع کیا۔

جیانگ جو ماضی میں ایک اداکار رہ چکی تھیں انھیں چین کے سٹیج ڈراموں میں خاص طور پر بڑی دلچسپی تھی جو اس وقت چین میں بہت زیادہ مقبول تھے۔

انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ روایتی اوپراوں کا مطالعہ کیا اور ایک انتہائی تنقیدی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ وہ سب شہنشاہوں، دلہنوں اور بدمعاشوں کے بارے میں ہیں اور ان کا کمیونسٹ پارٹی کی جدوجہد اور چینی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو بنیادی طور پر کسانوں پر مشتمل تھا۔

جیانگ

جیانگ کا خیال تھا کہ روایتی چینی اوپیرا کمیونسٹ چین کی اقدار اور حقیقت کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ لیکن ان کی رپورٹ پر کسی نے کان نہیں دھرے اور اس کو وسیع پیمانے پر مسترد کر دیا گیا۔

ان ڈراموں، ٹیپوں اور اداکاروں کو جنھیں وہ مغرب پسند یا قدامت پسند تصور کرتی تھیں انھیں سینسر کرنے کی کوششوں کو وجہ سے انھیں ایک ‘جارحانہ’ اور ‘متکبر’ شخیصت کے طور پر شہرت حاصل ہونے لگی اور ان کے ناقدین انھیں نکلوانے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کے وہ کون سے ’چار تاریخی ادوار‘ ہیں جو وہ سب کو پڑھانا چاہتا ہے؟

ماؤ کی کمیونسٹ پارٹی چین کو کیسے چلاتی ہے؟

چین کے سپر پاور بننے کا پلان ملکی سیاست کے اہم ترین دو اجلاس میں زیرِ غور

80 کی دہائی کا ’بلیک اینڈ وائٹ‘ چین

ثقافتی انقلاب

جیانگ اپنی زندگی کی زبردست چھلانگ اس وقت لگانے میں کامیاب ہوئیں جب ان کے شوہر کی ‘گریٹ لیپ فاروڈ’ یا آگے کی طرف زبردست چھلانگ ناکام ہو گئی۔ صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے ماؤ کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا اور اس کے نیتجے میں 1958 اور 1962 کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔

کمیونسٹ پارٹی نے جب ماؤ کی حمایت بند کر دی تو اس زیرک سیاست دان نے اپنی حیثیت بحال کرنے کے لیے اپنے قریبی رفقا اور بیوی پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔

سنہ 1966 میں کمیونسٹ پارٹی میں ایک انتہا پسند گروہ نے ایک تحریک شروع کی جسے بعد میں ثقافتی انقلاب کا نام دیا گیا۔

اس تحریک کا بنیادی مقصد نوجوان کو روایتی حکام، اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے خلاف منظم کرنا تھا۔ ماؤ کے مطابق ان عناصر نے کمیونسٹ انقلاب کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس انقلاب کا بنیادی مقصد پارٹی کے اندر موجود ماؤ مخالف عناصر کو خاموش کرنا تھا، جن میں ڈینگ ژاؤپنگ بھی شامل تھے، جو برسوں بعد چین کے صدر بنے۔

سچ تو یہ ہے کہ جیانگ کنگ کو جو شہرت اور پذیرائی اداکاری سے حاصل نہ ہو سکی وہ سیاست میں انھیں ثقافتی انقلاب سے حاصل ہو گئی۔ ماؤ نے ان کا نام سی سی پی کے اعلیٰ عہدیداروں میں شامل کر لیا اور وہ اس کے اہم اور پرجوش ترجمان بن گئیں۔

سنہ 1966 میں پیکنگ یونیورسٹی کے طلبہ سے ایک پر جوش اور جذباتی خطاب سے انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

جیانگ

ماؤ کی اہلیہ کی تند و تیز تقاریر سے نوجوان کو کسی بھی اتھارٹی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی تحریک اور حوصلہ ملا جن کو وہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے تھے

اس دن یونیورسٹی طلبہ میں شامل نوجوان خواتین میں سے ایک، کیتھی یینگ نے 1977 میں بی بی سی کو بتایا کہ جیانگ نے ان کی سوچ بدلنے میں کس طرح کامیابی حاصل کی تھی۔

کیتھی پینگ کے مطانق جیانگ نے چین کے پسے ہوئے طبقے کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی اپنی سوچ پر بات کی اور کہا کہ سوویت یونین اور مغرب کے ‘پرولتاری آرٹ’ یا پسماندہ طبقوں کے فنون لطیفہ کو چین کو نہیں اپنانا چاہیے۔

جیانگ نے مزید کہا کہ وزارتِ ثقافت نے ان کی بھی نہیں سنی اور وہ بھی اس طرح ہی مظلوم ہیں جس طرح دوسرے لوگ ہیں۔

تشدد

ماؤ، جیانگ کنگ اور ان کے حامیوں کی طرف سے نوجوان کو متحرک کرنے کی کوشش کا نتیجہ چین کی حالیہ تاریخ میں سب سے اندوہناک دور کی صورت میں نکلا۔ سکول اور یونیورسٹیاں بند کردی گئیں اور لاکھوں طلبا ریڈ گارڈز میں شامل ہو گئے، نوجوان عسکریت پسندوں اساتذہ، دانشوروں، حکام اور جس کسی کو بھی وہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں انھیں دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے۔

بہت سے لوگوں نے جنھیں نوجوانوں کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اپنی زندگیاں خود ختم کر لیں۔

ماؤ اور ان کے حامیوں نے شخصی اقتدار قائم کرنے کے لیے ماؤ کے فرمودات پر مشتمل ایک کتابچہ تشکیل دیا جسے ‘لٹل ریڈ بک’ کہا گیا۔ ماؤ اور پارٹی سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے پارٹی کے ہر رکن کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا کہ وہ اس کتاب کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھے اور ماؤ کے ارشادات کو زبانی یاد کریں۔

ملک بھر میں ایسے پوسٹر لگائے جن میں جیانگ کو سرخ کتاب اٹھائے گئے دکھایا گیا اور یوں جیانگ چین کی طاقت ور ترین خاتون بن گئیں۔

بہت سے لوگ جنھوں نے عشروں قبل جیانگ کی مخالفت کی تھی وہ ان کی انتقام کی آگ کو یاد کرتے ہیں۔

رتنبرگ جو اس وقت دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ گرفتار کیے گئے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ جب ایک ملٹری سکول میں تقریر کرتے ہوئے جیانگ نے ایک بوڑھے جنرل پر الزام لگایا کہ وہ انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں تو اس جنرل کا رنگ پیلا پڑ گیا۔

کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ جیانگ نے شنگھائی میں ایک اداکارہ کی حیثیت سے اپنے ساتھ ہونے والے غیر اخلاقی سلوک کو چھپانے کی کوشش میں ان لوگوں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا تھا۔

فنکارانہ انقلاب

ماؤ نے اپنی اہلیہ کو جو اہم کام سونپا تھا، ان میں سے ایک فن میں انقلاب لانا تھا۔ جیانگ کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ روایتی اوپیرا کو ختم کر دیں جس پر وہ ماضی میں تنقید کرتی رہی تھیں۔

سابقہ اداکارہ نے ایک نئی فنکارانہ صنف کی تخلیق کو فروغ دیا جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا ایک اہم ستون بنی۔ اس انقلابی اوپیرا کو ماڈل اوپیرا یا ینگنانکسی بھی کہا جاتا ہے۔

یہ شوز، جو روایتی چینی اوپیرا اور مغربی موسیقی اور بیلے کا امتزاج تھے، صرف ان ہی شوز کو اس دہائی کے دوران اجازت دی گئی اور جب تک یہ انقلاب جاری رہا (1966-76) یہ شوز جاری رہے۔ ان شوز کے مرکزی کردار بہادر کسان تھے جنھوں نے برے مالکان، حملہ آوروں کے خلاف جنگ لڑی یا انقلاب کے دوسرے دشمن کے خلاف آواز اٹھائی۔

آج جیانگ کے دور میں تیار کردہ آٹھ ماڈل اوپیرا چینی مقبول ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن ’خاتون اول‘ کا اثر و رسوخ فن کے شعبے سے کہیں آگے چلا گیا۔

جیانگ

جیانگ کو اپنے اقتدار کے عروج تک پہنچنے میں کافی وقت لگا

اپنی تقاریر، اپنے پوسٹروں اور اپنے کام سے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے علاوہ، ان میں فیصلہ سازی کی زبردست صلاحیت بھی تھی۔

بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور مرکز کے ڈائریکٹر، چین کے ماہر انتھونی سائچ نے بی بی سی کو بتایا، کہ کمیونسٹ پارٹی کے باضابطہ ڈھانچے کو ختم کرنے کے بعد جیانگ نے ثقافتی انقلاب کے مرکزی گروپ کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

چین کی سیاسی تاریخ کے بارے میں متعدد کتابوں کے مصنف سیچ کا خیال ہے کہ جیانگ نے اس دور کے کٹر بنیاد پرست رہنماؤں میں ایک اہم شخصیت کا مقام حاصل کیا۔

گینگ آف فور

لیکن چین کی سب سے طاقتور خاتون 1970 کی دہائی کے وسط میں اپنا اثر و رسوخ کھو رہی تھی۔ پہلے، جب ان کے شوہر نے فوج کو ریڈ گارڈ کی زیادتیوں کو روکنے کا حکم دیا اور انتہا پسندانہ عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا۔ اور آخر کار ماؤ کی موت کے ساتھ ان کو حاصل سیاسی پشت پناہی ختم ہو گئی۔

پی آر سی کے باپ کا درجہ رکھنے والے قائد کی موت کے ایک ماہ بعد ستمبر 1976 میں سی سی پی رہنماؤں نے جیانگ کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور ان پر گینگ آف فور کے سرغنہ ہونے کا الزام لگایا جنھیں وہ ماؤ کے ’اتحادی‘ کہتے تھے۔

نئی پارٹی قیادت نے جیانگ اور مبینہ گینگ پر ثقافتی انقلاب کے دوران ہونے والے تشدد کا اصل ذمہ دار قرار دیا اور پارٹی کے بانی کو ان الزامات سے بری کر دیا۔

اس ورژن کے مطابق، جو آج تک سی سی پی میں موجود ہے ماؤ نے غلطیاں کیں، لیکن ’پُر امن جدوجہد‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسرے ماہرین کی طرح سیچ کا خیال ہے کہ جیانگ کنگ کو ایک قسم کے قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

جیانگ

ماؤ کی موت کے بعد ، ثقافتی انقلاب کی زیادتیوں پر جیانگ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا اور ان کو مجرم ٹھہرایا گیا۔

یہ بات واضح ہے کہ ماؤ کے بعد آنے والے رہنماؤں نے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی۔

عوام میں اپنے آپ کو قابل اعتبار بنانے اور قوم کا اعمتاد حاصل کرنے کے لیے انھیں عظیم رہنما کو جزوی طور پر قصور وار ٹھہرانا پڑا۔ لیکن اپنی ساکھ اور حقیقت میں حکمران جماعت کی ساکھ کو بچانے کے لیے اس دور میں ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے انھیں دوسروں کی تلاش تھی۔

برطانوی یونیورسٹی ہارورڈ کی تحقیق کے مطابق جیانگ کنگ اور گینگ آف فور کے دیگر ممبران، لن باؤ (سابق فوجی رہنما، ماؤ کے حلیف، جو 1971 میں مشتبہ حالات میں ہلاک ہوئے تھے) کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔‘

جیانگ نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ دعوی کیا تھا کہ وہ صرف ماؤ کے حکم پر ایک وفادار کتے کی طرح عمل کر رہی تھیں لیکن انھیں 1981 میں موت کی سزا سنا دی گئی۔ مگر ان کی سزا عمر قید میں بدل گئی تھی۔

ایک دہائی جیل میں گزارنے کے بعد انھیں گلے کے سرطان میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن، وہ مئی 1991 میں، 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

سرکاری بیانیے کے مطابق انھوں نے خود کو پھندے سے لٹکا کر خود کش کی لیکن ان کی زندگی میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات کی طرح ان کی موت کو بھی پوشیدہ رکھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp