جمہوری طور پر منتخب لیڈروں اور آمروں کے سفر آخرت میں فرق
صدر ممنون حسین کی رحلت پر شائع خبریں پڑھ رہا تھا اور جمہوری طور پر منتخب اور آمروں کے سفر آخرت میں ریاستی رویے کے فرق پر رنجیدہ تھا کہ محترم پرویز رشید کا فون آ گیا ان سے بھی گفتگو کا آغاز صدر ممنون حسین جو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی تھے کہ رحلت پر ایوان اقتدار کی بے حسی پر ہوا۔ وہ بھی میری مانند اس پر غم زدہ تھے کہ سابق صدر کے سفر آخرت کے حوالے سے جو رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا اس کا عشر عشیر بھی ارباب اقتدار نے روا نہیں رکھا۔
مرحوم صدر کے صاحبزادے سے جب ٹیلیفون پر رقم الحروف نے تعزیت کی تو انہوں نے بتایا کہ میت پر قومی پرچم بھی مرحوم سے محبت رکھنے والے کسی عام پاکستانی شہری نے ڈالا تھا میری نظروں کے سامنے وہ خبریں گردش کرنے لگی کہ جس میں ایوب خان مرحوم اور یحییٰ خان مرحوم کو گن سلیوٹ پیش کیا گیا تھا۔ آمریت بہت مضبوط ہے۔ اسی دل شکنی کے ساتھ ساتھ لمحہ موجود میں قومی سلامتی کو سب سے بڑا معرکہ یہ درپیش ہے کہ افغانستان کی لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات کے منفی اثرات سے وطن عزیز کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
سفارتی سطح پر جو بوکھلاہٹ ہمارے ارباب اختیار میں اس وقت موجود ہے وہ اس کی آئینہ دار ہے کہ وہ اس صلاحیت سے عاری ہے کہ اس مشکل صورتحال سے نبرد آزما ہو سکے۔ جب دوحہ کانفرنس کا سامنے آیا تھا تو اس وقت بھی یہ معاملہ واضح تھا کہ یہ اسی نوعیت کی غلطی ہے کہ جیسی غلطی جنیوا معاہدے کے وقت کی گئی تھی اور اس وقت تو یہ صورتحال ہے کہ ہمیں جنیوا معاہدے جتنی بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو سب کچھ بتانے کی زحمت ہی نہیں کی جبکہ دوسرے فریق نے بھی پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دی جس کا پاکستان خود کو مستحق سمجھتا ہے۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سفارتکاری میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ جو حکومت موجود ہے اس کی نمائندہ حیثیت کیا ہے سابق سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے اور وہاں سے واپسی، نائن الیون اور اب امریکہ کی واپسی۔ ان تمام واقعات کے وقت پاکستان میں ایسی حکومتیں موجود رہیں جن کی نمائندہ حیثیت پر بات کرنا بھی جمہوریت کے ساتھ مذاق کے مترادف ہیں۔ اسی لیے ”فرنٹ لائن اسٹیٹ“ ہونے کے باوجود قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ ہمیں تو امریکہ نے اپنے انخلا کا بتایا تک نہیں۔
اسی طرح ان کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہو رہا کہ وہ کوئی راستہ نکال پاتے بلکہ وہ صرف یہ کہہ رہے ہے کہ افغان طالبان اور بھارت کے روابط کے حوالے سے بھارت کو شرم آنی چاہیے کہ وہ افغان طالبان سے رابطہ کر رہا ہے بھلا بین الاقوامی تعلقات میں شرم کا کہہ کر کسی کو اس کے مفادات حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے؟ یہ تو حکمت عملی کا کھیل ہے جس کے حکمت عملی مضبوط اس کی کامیابی۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ جب طالبان کامیاب ہو رہے ہے تو ہماری کیوں سنیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آپ ان کو افغانستان کے معاملات میں سنانا ہی کیوں چاہتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ افغانستان میں طالبان یا کوئی بھی حکومت ہو ہمیں ان سے اس پر بات کرنی چاہیے کہ وہ پروگرام ترتیب دیں کہ افغان مہاجرین کی ان کے ملک واپسی ہو اور مزید افغان مہاجرین کا ریلا مت آئے۔ اسی کی مانند بلوچستان میں دہشت گردی کے سارے تانے بانے افغانستان کی سرزمین سے ملتے ہے اس کا خاتمہ ہر قیمت پر ہو جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی بھی افغانستان سے متحرک ہے اس کے حوالے سے پاکستان کو مزید کسی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
افغان طالبان کا یہ اعلان کے وہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق کے حوالے سے مثبت کردار ادا کریں گے بین الاقوامی برادری کے رکن کی حیثیت سے ہمارے لئے خوش آئند ہے مگر ہمیں دراصل ان خطرات سے نمٹنا ہے جو اس سے قبل بیان کیے گئے ہیں۔ مگر ہماری طرف سانپ سونگھا ہوا ہے ہم یہ بالکل بھی نہیں جانتے کہ افغان طالبان کا اس حوالے سے کیا رویہ ہو گا کیونکہ ہمیں یہ اچھی طرح سے یاد ہے کہ افغان طالبان کا ماضی میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے وہ ہی رویہ تھا جو اس سے قبل کابل کی جانب سے دیکھنے میں آ رہا تھا۔
اشرف غنی حکومت سے تو اس حوالے سے کوئی توقع نہ ماضی میں قائم تھی اور اب تو اس کا سوال ہی کیا۔ اصل میں ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان طالبان کی ان امور پر مکمل پالیسی سامنے آنے کی کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ اگر ماضی کے حالات دہرائے گئے تو زمین بس خون سے رنگین ہونے والی ہے۔ اور اس کے اثرات سانحہ داسو ڈیم کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ چین کا تو اس سانحہ کے حوالے سے بہت محتاط ردعمل سامنے آیا مگر ہم اسے اس ڈیجیٹل عہد میں پہلے تو چھپانے کی کوشش کرتے رہیں اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ چین سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔
کیا چین نے کہا ہے کہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں؟ نہیں! تو پھر اپنی طرف سے ہی ایسی گفتگو کرنے کا کیا مقصد ہے؟ ان واقعات کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے معاملات پر بھی اثر پڑے گا مگر اس حوالے سے بھی یہ صرف بتایا جا رہا ہے کہ بھارت وہاں معاملات خراب کر رہا ہے بھارت تو یہ ہی کرے گا۔ آپ بتائیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آپ کے پاس بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے
- چیل کی آنکھ درکار ہے - 18/04/2024
- صوبائی فارن ٹریڈ پالیسی، ایک ضرورت - 04/04/2024
- خارجہ تعلقات سے اقتصادی تعلقات تک - 20/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).