اگر بیانیہ بک نہیں رہا تو بیانیہ بدل کے دیکھ لیں


آزاد کشمیر الیکشن کا رزلٹ بالکل ویسے ہی آیا۔ جیسے کہ میں اپنی پچھلی تحریروں میں بیان کر چکی۔ ( الیکشن میں کچھ فیصلے ریاست لینے جا رہی ہے ) اور آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج پاکستان میں آنے والی حکومت کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ اب پی ٹی آئی پاکستان کی دو بڑی اور پرانی سیاسی پارٹیوں کو شکست دے کر 25 سیٹوں کے ساتھ آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

میں یہاں عمران خان اور اس کی پارٹی کو داد ضرور دوں گی جنہوں نے پاکستان کے ضمنی الیکشن میں مسلسل ہارنے کے بعد اپنے ناکامیوں اور کوتاہیوں پر کام کیا اور صرف اپنے مخالفوں کو جیل میں ڈالنے اور ”انھیں نہیں چھوڑوں گا“ کی رٹ کو چھوڑ کر جوڑ توڑ، برادری، پیسہ چلایا، دھڑوں کی سیاست پر کام کیا۔ بڑے بڑے منصوبے اور مستقبل کے سہانے خواب دکھائے۔ اور پبلک الیکشن میں یہی وعدے سننا چاہتی ہے۔ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم سے ہمارا ووٹ مانگنے والا ہمیں ہمارے ووٹ کے بدلے کیا دے گا؟ اور عمران خان نے اچھے سیلز مین کی طرح اپنی برانڈ خوب اچھے سے بیچی اور لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ خریدا بھی۔

عمران خان کا بدلہ ہوا بیانیہ اور آزاد کشمیر کی جیت نے کامیابی کی ایسی ہوا بنائی۔ کہ پاکستان میں سیالکوٹ میں ہوئے ضمنی الیکشن پر مسلم لیگ نون کی 2018 میں جیتی ہوئی ان کے گھر کی سیٹ بھی ان کے ہاتھوں سے چھین لی۔

مسلم لیگ نون کی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بعد پنجاب میں بھی شکست کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ اس شکست نے مسلم لیگ نون کے ووٹر اور سپورٹر کو ہی نہیں ان کی قیادت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ نون کی ہر دل عزیز اور کراؤڈ پلر مریم نواز شریف کے کامیاب جلسوں کے بعد تو سب سیاسی مبصرین یہی کہہ رہے تھے۔ کہ مریم نواز کی شخصیت کا جادو چل گیا ہے۔ اب عمران خان کا الیکشن جیتنا آسان نہیں ہو گا۔ اب اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی مدد نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ پبلک کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا وغیرہ۔

یہاں میں بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنے پچھلے ایک کالم کا حوالہ دوں گی۔ جہاں میں نے واضح طور پر لکھا تھا۔ کہ دیکھنا ہو گا کہ کیا مریم نواز شریف اپنے جلسے میں آئے لوگوں کو ووٹ کی صورت میں کیش کروانے میں کامیاب ہو پائیں گی؟

کیونکہ مریم نواز شریف سے زیادہ لوگ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہے نواز شریف کی بیٹی کو بھی دیکھنے آ رہے تھے۔ جو پہلی دفعہ آزاد کشمیر میں الیکشن کمپین کر رہیں تھیں۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ نواز شریف کی بیٹی ان کو ایسا کیا نیا بتانے آئیں ہیں۔ جس کا انھیں پتہ نہیں ہے۔

مجھے یہاں بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ مریم نواز شریف اپنی پچھلی تقریروں کی طرح ہر جلسے میں وہی تقریریں دہراتی رہیں۔ انھوں نے آزاد کشمیر کے لوگوں کو کوئی روڈ میپ کوئی ایسی امید نہیں دکھائی۔ جیسے سن کر ان کی آنکھوں میں چمک آ جاتی۔ انھوں نے گراؤنڈ کی سیاست کو مجرمانہ حد تک اگنور کیا۔ اپنا سارا فوکس صرف جلسوں اور تقریروں تک محدود رکھا۔

ایسا لگا جیسے مریم نواز شریف کو پارٹی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ شاید یہ سمجھ بیٹھیں کہ پبلک صرف انھیں دیکھ کر سن کر ووٹ دیں گے۔ ان کے پاس یہ گولڈن چانس تھا اپنے مستقبل کو چار چاند لگانے کا۔ جہاں وہ اپنی پارٹی کی سینئر قیادت سے لے کر پارٹی صدر کی سپورٹ کے ساتھ ایک متحد اور مضبوط پارٹی کا پیغام دیتیں۔ انھوں نے الیکشن کمپین کو نا صرف خود لیڈ کیا۔ بلکہ پارٹی کے قائد اور اپنے والد محترم نواز شریف کی موجودگی کو اپنے جلسوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے یقینی بنایا۔ اور دونوں والد اور بیٹی نے اپنی کی مزاحمتی کمپین بھی کی۔ کسی کی روک ٹوک نہی، پارٹی سے کسی کی مداخلت بھی نہی۔ یا یوں کہہ لیں مفاہمتی سوچ رکھنے والے آس پاس بھی نہیں تھے۔

اس کے باوجود مسلم لیگ نون کو عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ایسا کیا ہوا کہ لوگ ان کے جلسوں میں تو آئے۔ لیکن ووٹ دینے کے لئے دوسری پارٹیز کا انتخاب کیا؟

آخر کچھ تو غلط ہوا ہے۔ کیا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لوگ مسلسل چار سالوں سے سن سن کے لوگ بور ہو گئے ہیں؟ یا مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف سمیت ان کی پارٹی نعرے کے علاوہ انھیں کوئی عملی لائحہ عمل، کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام تو نہیں ہو گئی؟

شہباز شریف خاموش رہ کر کیا الیکشن کمپین سے خود دور رہے؟ یا پھر انھیں جان بوجھ الیکشن کمپین سے دور رکھا گیا؟

سوالات بہت سارے ہیں۔ جو اس جماعت کے ووٹر اور سپورٹر کے ذہنوں میں پنپ رہے ہیں۔ جن کے جوابات انھیں درست صورت میں مل نہیں رہے۔ ہر طرف دھند کا سماں ہے۔ کبھی سوشل میڈیا پر مریم نواز کے حامی یہ شوروغل کرتے نظر آتے ہیں کہ اس شکست کے ذمے دار شہباز شریف اور حمزہ شہباز ہیں، وہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ مریم نواز کامیاب ہوں، یہ سب شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مریم نواز کو دھندلی کر کے ہروایا ہے۔

پھر یہ خبریں بھی پھیلائی گئیں۔ کہ شہباز شریف الیکشن کمپین پر اعتماد میں نا لئے جانے پر سخت ناراض ہیں اور پارٹی کی صدارت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایسی خبریں کیوں اور کون پھیلا رہا ہے؟

اب یہاں میرے کچھ سوال ہیں۔ اگر شہباز شریف جان بوجھ کے دور رہے تو کیا مریم نواز نے 26 جلسے بنا پارٹی کی مدد کے اکیلے کر لئے؟

مریم نواز شریف نے شہباز شریف کے طے شدہ 17 جولائی کے جلسے سے پہلے اسی طے شدہ مقام پر 16 جولائی کو جلسہ کیوں اور کس کے کہنے پر کیا؟ کیا انھیں نہیں معلوم تھا۔ کہ پارٹی کا ایک ہی مقام پر چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد جلسے کرنے سے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

پارٹی کے جتنے بھی لوگوں نے میڈیا سے بات کی سب نے ایک بات ضرور کی کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی۔ لیکن کوئی بھی اس غلط فہمی پر بات نہیں کر رہا ہے۔

بہرحال مریم نواز کو کھل کر کھیلنے کے لئے میدان ضرور مہیا کیا گیا۔ اب اس کا ان کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ اس کا فیصلہ ہم وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ شہباز شریف کی صدارت سے استعفی دینے کی بات کی سچائی کو جاننے کی کوشش کی۔ کچھ صحافیوں سے پوچھا ان کی رائے لی تو پتہ چلا ہر صحافی اسی بات ہر بضد ہیں کہ خبر سچ ہے۔

جبکہ میرا تجزیہ اور تجربہ کہتا ہے کہ اس خبر کو پڑھ کر شہباز شریف مسکرائے ضرور ہوں گے۔ لیکن اب اگر شہباز شریف کو پارٹی کو بچانا ہے تو مجنوں بن کر لیلیٰ کی خاطر سب الزام لینے بند کرنے ہوں گے۔ انھیں کھل کر سامنے انا ہو گا۔ کیونکہ پارٹی کے منتخب نمائندے انھیں واضح الفاظ میں بتا چکے کہ اگر ہمارا یہ چلن رہا تو پارٹی تباہ ہو جائے گی۔

اب کچھ حقائق پر مبنی بات ہو جائے؟

اگر ہم 2018 کے الیکشن سے پہلے نظر دوڑائیں تو نواز شریف صاحب کے بیانیے سے ان کی جماعت کے ہی رہنماؤں نے دوری بنا لی تھی۔ اب تو یہ دوری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کی جماعت کے لوگ ان کے بیانیے کو دہرانے کی بجائے خاموش ہو گئے ہیں۔ سوائے چند ایک کے وہ بھی ملی جلی بات کر کے نکل لیتے ہیں۔

کون سا پارٹی کا ایم پی اے، ایم این اے کھڑا اس بیانیے کے ساتھ؟ بتا دیں؟ پارٹی ٹکٹ پر لیڈر نے نہیں ان کے امیدوار الیکشن لڑتے ہیں۔ اس نے اپنا پیسہ لگانا ہوتا ہے۔ جب اسے پتہ ہو ہم اگر ہم ریاست سے ٹکرانے جائیں گے تو پھر ہار ہمارا مقدر ہو گی، وہ وہ اپنا پیسہ نہیں لگائے گا۔

کبوتر کی طرح سچ سے بھاگ کر آنکھیں بند کر لینے سے جھوٹ سچ نہیں بن جائے گا۔ ہر بار دھندلی دھندلی کا چورن نہیں بکے گا۔ کچھ نیا مارکیٹ میں لانا پڑے گا۔ پاکستان کے لوگ کھوکھلے نعروں سے نہیں اپنے آس پاس ہونے والی صورتحال کو بھانپ کر ووٹ کرتے ہیں۔

بنی بنائی سٹیج پر آ کر تقریر اور جلسے کرنے میں فرق ہوتا ہے اور سیاست میں اصل جدوجہد میں فرق ہوتا ہے عمران خان نے اکیلے 22 سال کوشش کی ناکام رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پکڑا کامیاب ہوا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے والد کی موت کے بعد سیاست اور پارٹی سے بالکل دور اور باہر کر دیا گیا تھا۔ پھر جب اسٹبلشمنٹ نے اشارہ کیا۔ تو ہی واپسی ممکن ہوئی اور پارٹی کا قبضہ ملا۔ نواز شریف صاحب خود بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پکڑ کر سیاست میں آئے اور بار بار ان کے اشارے پر ہی دو بار اقتدار کی گلیوں میں جانا بھی نصیب ہوا۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بنی بنائی پارٹی پر راج کرنا اتنا ہی آسان ہے تو سوری پھر کچھ لوگوں کو جاگنے کی ضرورت ہے۔

فین بنانے اور ووٹ لینے میں فرق ہوتا ہے۔
اپ دو بیانیے کے ساتھ 2023 کے الیکشن میں نہیں جا سکتے۔
لہذا اب پارٹی قیادت کو سوچنا ہو گا۔ کہ اگر ان کا بیانیہ کام نہیں کر رہا تو اپ کو اپنا بیانیہ بدلنا ہو گا۔

پنجاب کے اندر ہوئے ”آئی پی او آر“ کے حالیہ سروے کے مطابق پنجاب کے 61 % لوگ مسلم لیگ نون کو مفاہمتی بیانیہ ہر عمل کرتے ہوئے اداروں کے ساتھ معاملات کر کے آگے بڑھنے کا کہتے ہیں۔ یہ پنجاب کی پبلک کا واضح پیغام ہے کہ ہم انقلابی نہیں ہیں۔ ہم نعرے تو لگا سکتے ہیں۔ ووٹ بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم اپنا جانی اور مالی نقصان کروا کر لڑ نہیں سکتے اور صرف 13 % لوگ مزاحمتی سیاست کے حق میں ہیں۔

اور جاتے جاتے ایک مشورہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے لئے بھی۔

کہ جناب جب شہباز شریف کو ٹیم کا کپتان بنایا ہے تو پھر فیصلے بھی انھیں ہی کرنے دیں۔ کیونکہ میدان کے اندر کون سا کھلاڑی کب کھیلے گا، کیسے کھیلے گا اس کا فیصلہ کپتان گراؤنڈ کی صورت حال اور مدمقابل کھلاڑیوں کو دیکھ کر ہی لے سکتا ہے۔ دور بیٹھا کوچ اپنا کام کر چکا ورنہ ٹیم کی ناکامی کا بوجھ کپتان سے زیادہ کوچ کے سر جایا کرتی ہے جناب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments