بحری جہاز پر حملہ، ایران اور اسرائیل میں کشیدگی،


اسرائیل کے وزیر اعظم

اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ یقین سے یہ کہہ عمان کے ساحل کے قریب تیل بردار بحری جہاز پر حملے میں ایران ملوث ہے جبکہ ایران ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے چکا ہے۔

اسرائیل کی ایک کمپنی کے تیل بردار بحری جہاز ایم وی مرسر سٹیریٹ پر جمعرات کو ہونے والے حملےمیں عملے کے دو ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران اور اسرائیل کا مسئلہ ہے کیا؟

مال بردار بحری جہاز پر پُراسرار حملے کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی

اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے خبر دار کیا ہے کہ ‘ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران کو کیا پیغام دینا ہے۔’ ایران نے دوسری طرف یہ کہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ذرا سی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لے گا۔

حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور ایران کے بحری جہاز حملوں کی زد میں آتے رہے ہیں۔

اس سال مارچ سے اس نوعیت کے حملوں کو ایک دوسرے سے بدلے لینے کے واقعات قرار دیا جا رہا ہے

۔

بی بی سی کے سیکیورٹی امور کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ یہ غیر اعلانیہ اور چھپا چھپا کے لڑئی جانے والی جنگ میں تیزی آتی جا رہی ہے لیکن مرسر سٹریٹ پر عملے کے ارکان کی ہلاکت سے یہ جنگ ایک خطرناک درجے میں چلی گئی ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ایک سیکیورٹی گارڈ اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والا عملے کا ایک رکن اس جہاز پر ہلاک ہو گئے جس کے بارے میں امریکہ کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ڈرون سے کیا گیا۔

ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زاد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ اسرائیل کو بے بنیاد الزامات لگانے سے باز رہنا چاہیے۔

ایران کے خلاف لگنے والے الزامات پر انھوں کہا کہ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے۔’

اسرائیل کے وزیر اعظم نے اتوار کو اپنی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق ایران نے یہ حملہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو ایران کو بتا دینا چاہیے کہ اس نے یہ حملہ کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بہرصورت وہ جانتے ہیں کہ ایران کو کیا پیغام بھیجنا ہے۔

ایران نے بھی اسرائیل پر اس کی جوہری تنصیبات پر حملوں اور جوہری سائنسدانوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں ویانا میں جاری مذاکرات کے پس منظر میں ہو رہا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان سنہ 2015 میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس چند اور ملک بھی شامل تھے۔ اس معاہدے کے بعد امریکہ نے ایران پر عائد کچھ اقتصادی پابندی ہٹا لی تھیں جس کے جواب نے اپنا جوہری پروگرام روک دیا تھا۔

مغربی ملک ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp