بین الافغان مصالحت: طالبان اور چند سوالات


امریکی افواج کے انخلا کے عمل کے آغاز سے افغانستان کی صورت حال پاکستانی میڈیا کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ ان میں پیشتر روایتی تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کی گفتگووں اور تحریروں کا محور تو زیادہ تر عام فہم حقائق یا نکات پر رہتا ہے۔ حل سے متعلق بھی ان کی تجاویز عموماً پند و نصائح پر مبنی کتابی قسم کی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان تجزیہ کاروں کی بعض باتوں یا نکات پر تو بحث کی ضرورت نہیں۔ تاہم ان کے اس بات کے بارے دو رائے نہیں ہو سکتی ہیں کہ افغانستان میں امن و استحکام خطے اور بالخصوص پاکستان کے مفاد میں ہے۔

اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ افغانستان کی صورت حال کا بہترین اور آئیڈیل حل یہ ہوگا کہ وہاں باہمی اتفاق یا عوامی تائید پر مبنی حکومتی انتظام عمل میں لایا جائے جس کے لیے افغانستان کے مختلف فریقین کے مابین باہمی صلح اور سمجھوتا ضروری ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست سوال مگر یہ ہے کہ افغانستان کے معروضی حالات کی روشنی میں بین الافغان مصالحت کا عملی امکان کتنا ہے؟

افغانستان کی تاریخ۔ کلچر۔ زمینی حقائق حتی کہ جغرافیہ اور طالبان کی تنظیم، مقاصد اور مائنڈ سیٹ سے کما حقہ واقفیت نہ رکھنے والے روایتی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے تجزیوں اور تجاویز کو خیالی۔ کتابی یا حسن ظن پر مبنی ہوتا ہے۔

اس لیے مذکورہ سوال ( افغان فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کسی سیٹ آپ کے قیام کے امکان ) کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا دو ذیلی سوالات کا متقاضی ہے ( 1 ) ایک یہ کہ کیا طالبان اور دوسرے افغان فریقین کا کوئی مشترکہ پائدار سیٹ آپ کسی بنیاد پر بن سکتا ہے یا نہیں؟

( 2 ) دوسرا یہ کہ کیا طالبان کو عسکری طاقت کے بجائے جمہوری طریقے سے بر سر اقتدار آنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

پہلے سوال کے سلسلے میں بے جا بحث میں پڑے بغیر یہ دلیل زیادہ وزنی اور موثر ہے کہ طالبان چونکہ اپنے ایک مخصوص تصور مذہب اور شریعت کے پیروکار ہیں۔ ان کی تحریک اور تمام تر سرگرمیوں کی اساس یہی تصور ہے۔ اس سے انحراف بلکہ اس پر کوئی سمجھوتا کرنا بھی اپنی بنیاد کو گرانے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے سے متضاد یا مختلف سوچ اور نظریات رکھنے والے گروہوں اور رہنماؤں کو ساتھ ملا کر افغانستان میں کسی مستقل سیٹ آپ میں شرکت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ محض ایک خواہش ہو سکتی ہے۔

اسی طرح طالبان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی شاید نتیجہ خیز نہ ہو کہ وہ بندوق کے بجائے انتخابی عمل کے ذریعے بر سر اقتدار آجائیں۔ کیونکہ طالبان جانتے ہیں کہ افغان عوام کی اکثریت ان کے حق میں نہیں اس لیے وہ ووٹ کے ذریعے حکومت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ جنگ ہی کو زیادہ موثر راستہ سمجھتے ہیں۔ ان کو شاید یہ زعم بھی ہے کہ وہ جلد افغان حکومت کو شکست دے کر حکومت پر قابض ہو جائیں گے۔ (عمومی خیال بھی یہی ہے کہ مستقبل قریب میں طالبان قابض ہو سکتے ہیں ) ۔

ایک بحث طالبان کا افغانستان میں بر سر اقتدار آنے کی صورت میں ان کی اندرونی اور بیرونی پالیسی کے بارے میں ہے۔ اس سلسلے میں ( 1 ) ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ماضی کے مقابلے میں ان کا رویہ معتدل اور روادارانہ ہوگا اور اپنے تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کریں گے کہ نہیں؟

( 2 ) دوسرا سوال ان کے بیرونی پالسی سے متعلق ہے کہ بین الاقومی عسکری تنظیموں ( القاعدہ، داعش ) اور ہمسایہ ممالک سے متعلق جہادی گروہوں کی پشت پناہی اور سپورٹ کریں گے یا نہیں؟

اگرچہ چند ایک تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ بدلتے حالات اور بین الاقوامی دباو کے تحت طالبان ماضی کے مقابلے میں بہتر اور قابل قبول رویہ اور پالیسی اپنائیں گے۔ تاہم حسن ظن کے بجائے حقیقت پسندی سے پرکھنا ہو تو طالبان کے مخصوص تصور مذہب یا نظریے کو یہاں بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔

یہ ممکن ہے کہ ماضی کے تجربات، بدلے ہوئے حالات اور کچھ بین الاقوامی دباو کے باعث وہ اپنے طرز حکمرانی کے بعض پہلووں میں کسی حد تک اعتدال اور رواداری سے کام لیں۔ لیکن اپنے تصور شریعت کے اساسی اصولوں اور تعلیمات سے رو گردانی کو غالباً گوارا نہیں کریں گے فنون لطیفہ، عورتوں کے حقوق، مخلوط تعلیم، آزادی اظہار، پیشتر تفریحات پر پابندیوں اور شرعی سزاوں جیسے امور میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے یا کرانے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

جہاں تک ان کے بیرونی پالیسی سے متعلق سوال (دہشت گرد/ جہادی گروپوں کی پشت پناہی) کا تعلق ہے تو بین الاقوامی سطح اور خاص کر خطے کے ممالک کے لیے زیادہ باعث تشویش یہی سوال ہے۔ اور اس کا اظہار وہ کر بھی رہے ہیں۔ طالبان کو بھی اس کا ادراک ہے۔ اپنی ممکنہ فتح کے لیے جنگی محاذ پر سرگرم ہونے کے ساتھ وہ سیاسی اور سفارتی میدان میں بھی متحرک ہیں۔ اپنے سفارتی وفود کے ذریعے وہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ بر سر اقتدار آ کر وہ کسی ایسی عسکری یا انتہا پسند تنظیم یا گروہ کو نہ افغانستان میں جگہ دیں گے نہ سپورٹ کریں گے۔

جو ان ممالک کے مفادات کے خلاف سرگرم ہوں۔ تاہم یہاں خدشہ یہ ہے کہ طالبان سے ان یقین دہانیوں کی پاسداری نہ ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ تو طالبان کا وہی تصور اور نظریہ ہے۔ جہاد جس کا ایک جز ہے۔ طالبان کا اپنے ہمدرد۔ حامی اور مددگار ہم نظریہ جہادی گروپوں کے خلاف جانا اپنی تحریک کے اساس کے خلاف جانے کے مترادف ہوگا۔ جو ان کے لیے منفی مضمرات کا باعث ہوگا۔

دوسری وجہ بعض جہادی اور عسکری عناصر اور گروہ ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں بعض جہادی تنظیمیں یا گروپوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جن میں کچھ گہرا اثر و رسوخ اور وسائل رکھتے ہیں

بالفرض افغان طالبان اگر چاہیں بھی تو ان میں سے کچھ گروہوں کو اپنی سر زمین سے نکالنا یا بے اثر بنانا شاید ان کے لے آسان نہ ہو۔

انہی وجوہ کی بنا پر خطے کے ممالک محض طالبان کے زبانی وعدوں اور یقین دہانیوں پر انحصار کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ اور کسی بھی ممکنہ صورت حال سے عملی طور پر نمٹانے کا مناسب انتظام کرنے سے بھی غفلت نہیں برتیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments