دیوار پر نقش تصویر کے پیچھے چھپی تحریر


پاکستان میں متعدد سیاسی تجربات کئے گئے ہیں۔ ان میں تاحال سب سے کامیاب تجربہ وہ ڈھونگ ہے جسے بڑی کامیابی سے چلایا جارہا ہے۔ اس ڈھونگ میں ایک پارلیمنٹ ہے، ایک منتخب وزیر اعظم ہے اور اپوزیشن کی چند پارٹیاں ہیں۔ اور کچھ ایسے کردار ہیں جن کو کسی نام سے موسوم کرنا ممنوع ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے یہ ڈھونگ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس ڈھونگ کی حقیقت مگر یہی ہے کہ اس پر خوف کا سایہ ہے اور ہر کردار اپنی اپنی جگہ پر سہما رہتا ہے۔ حتی کہ سب کو خوفزدہ کرنے والے بے نام کردار بھی اس خوف سے محفوظ نہیں ہیں۔

یوں تو ملک کا ایک آئین بھی ہے اور سیاست دانوں کے علاوہ فاضل جج صاحبان بھی وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہر معاملہ آئین کے مطابق طے ہوگا۔ سپریم کورٹ آئین کی حفاظت کی ذمہ دار ہے لیکن ملک کا حقیقی حکمران وہ خوف ہے جس کی ڈور سے سب کردار بندھے ہوئے ہیں۔ سارے فیصلے اسی خوف میں کئے جاتے ہیں۔ حتی کہ اس ملک میں قانون سازی بھی خوف کی فضا میں ہی ہوتی ہے۔ اول تو صدارتی آرڈی ننس کے نام پر بہت سے قانون عوام پر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ یا پھر حکومت اتنی ہراساں ہوتی ہے کہ کورم اور قواعد کی ضرورتیں روندتے ہوئے قوانین کا پلندہ اپوزیشن کے احتجاج اور شرم کرو جیسے نعروں کی گونج میں منظور کروا لیتی ہے۔ کبھی اپوزیشن کو کوئی قانون منظور کروانے کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا شوق ہوتا ہے کہ حاضری لگنے میں کوتاہی نہ ہو جائے اور انتخابات کے نام پر منعقد ہونے والے آئندہ امتحان میں ناکامی کا امکان نہ رہے۔

خوف کی مسلسل کیفیت کے کسی نازک مرحلے پر ملکی آئین بھی کسی نئی تشریح، کسی نئے نظریہ ضرورت کی آڑ میں اپنی عزت بچا کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ وہی جج حضرات جو اس مقدس قومی دستاویز کی حفاظت پر مامور ہیں، کوئی ایسا راستہ نکالنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آئین کی حفاظت کا ڈھونگ بھی برقرار رہے اور استبداد کا راستہ بھی کشادہ کردیا جائے۔ ملک کے ایک سابق فاضل چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے حال ہی میں اپنی سوانح حیات ’ارشاد نامہ ‘ میں اس خوف کی تفصیلات درج کردی ہیں جو آئین کے محافظ محسوس کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھ کر اور سپریم کورٹ میں اس ’اہم‘ کتاب کی تعارفی تقریب کا اہتمام کرکے خوف کے ان احساسات کی تصدیق کی ہے جن کا ذکر ارشاد حسن خان نے اپنی ’انصاف پسندی اور مجبوری‘ کے ضمن میں کیا ہے۔ حالانکہ جو انصاف کسی مجبوری کا پابند ہوجائے، اس کے لئے کوئی نئی اصطلاح، کوئی نیا تعارفی لفظ تلاش کرنا چاہئے۔

خوف سے ملغوب اس سفر کے کسی اگلے پڑاؤ تک شاید اظہار کا کوئی نیا معیار مقرر کر لیا جائے جہاں ناانصافی ہی انصاف کہلائے اور اس کے لئے کسی حجت، شرمندگی اور وضاحت کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ جس رفتار سے خوف کا یہ سفر جاری ہے، ہوسکتا کہ ’ارشاد نامہ‘ نامی کتاب، خوف کے نام پر عدالتی ظلم کے اعتراف کا آخری بیان ہو۔ اس کے بعد ظلم ہی انصاف اور خوف ہی بے باکی کے معنوں میں استعمال ہونے لگے۔ وزیر اعظم عمران خان نے آج ’آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ‘ نامی پروگرام میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جس طرح ایک حبس زدہ معاشرہ کے پابند اور مجبور میڈیا کو آزاد اور خود مختار قرار دیا اور جس طرح ’حقیقی‘ میڈیا کی تعریف کی ہے، اسے سن کر اس قیاس پر یقین کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’قانون توڑنے، کرپشن کرنے، قانون کی بجائے طاقت کی بالادستی پر یقین رکھنے والے حکمران آزاد میڈیا سے ڈرتے ہیں۔ آزادی رائے ملک کے لیے بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے ہم حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ میڈیا سے مجھے اس وقت اختلاف ہوتا ہے جب جعلی خبریں چلائی جاتی ہیں یا حکومت کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ میرا موقف ہے کہ تنقید ملک کے لیے بہت بڑی نعمت ہے‘۔ دیکھئے کس صفائی سے ملک کا وزیر اعظم جھوٹ کو سچ، پروپیگنڈے کو حقیقت اور کاسہ لیسی کو تنقید کا نام دے کر خوف کی اس نگری میں ’آزاد و بیباک‘ میڈیا کا تعارف پیش کر رہا ہے۔

خوف کا یہ سایہ صرف ججوں کے فیصلوں یا صحافیوں کے اظہار میں ہی محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے ’بے خوف ‘ وزیر اعظم کو اندیشہ ہے کہ اس کی پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک نہ بن جائے یا اچانک اس کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ ہوجائے۔ کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے درخت سایہ دینے سے انکار کردیں۔ یا پھرکہیں اپوزیشن کی کوئی پارٹی یا لیڈر اس دربار تک رسائی حاصل نہ کرلے جو حکومت کی طاقت و اختیار کا سرچشمہ ہے۔ بھلے یہ اختیار جھنڈے والی گاڑی میں گھومنے، ملاقات کے دوران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے یا میڈیا کے سامنے پھنکارنے تک ہی محدود ہو۔ خواہ وزیر اعظم اپنی خود مختاری اور مکمل بااختیار ہونے کا پھریرا بھی اسی لئے لہراتے ہوں کہ یہ ’ڈھونگ‘ بھی کتاب میں درج اصولوں کے مطابق ہے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم اپنی خود مختاری کا اعلان نہیں کرے گا تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے جس میں عوام اپنے نمائیندے منتخب کرتے ہیں۔ عرف عام میں دھاندلی کا طریقہ، دراصل اپوزیشن کا ڈھونگ ہے کیوں کہ اس کی قسمت میں ہار لکھی ہوئی ہے۔

ووٹ سے عوام کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ و اعلان کرنے والے اپوزیشن لیڈر اپنے طور پر خوف زدہ ہیں کہ کہیں منہ سے کوئی ایسا لفظ ادا نہ ہوجائے جو آئندہ کسی مرحلے پر ان کے راستے کا پتھر بن جائے۔ انہیں یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ اظہار میں کوئی ایسا توازن پیدا کیا جائے کہ جسے عوام اپنے حق کی آواز سمجھیں اور ایوان اختیار میں اسے’ سٹیٹس کو‘ سے مطابقت قرار دیا جائے اور ’اگلی باری‘ والوں کی فہرست میں نام شامل رہے۔ اس فہرست میں رہنے کی تگ و دو ہی نے خوف و ہراس کا ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں سچ کا مفہوم تبدیل ہو چکا ہے اور جمہوریت کو انتخاب کی بجائے نامزدگی کا طریقہ بنا دیا گیا ہے۔ جو اس طریقہ کو ماننے سے انکار کرتا ہے، وہی غدار کہلاتا ہے۔ پھر کسی ہائیبرڈ اور ففتھ جنریشن وار کو ملک و قوم کے خلاف دشمن کا ہتھکنڈا کہا جاتا ہے۔ اور ان بے رہروؤں کی تلاش کا کام شروع کیا جاتا ہے جو عوامی بالادستی کے نام پر دشمن کا ’آلہ کار‘ بن جاتے ہیں۔

یہ سارے پرتو اس تصویر کے پہلو ہیں جسے ملک کے جمہوری تجربہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ا س میں جمہور کے سوا ہر گروہ اپنے مفاد کا تحفظ کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انہیں میڈیا اور قانون سے ڈر نہیں لگتا کیوں کہ وہ بدعنوان نہیں ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ میڈیا پابند کر لیا گیا ہے اور قانون اس وقت تک موم کی ناک ہے جب تک اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری تگ و د حکومت میں رہنے کے لئے ہے، عوام کی بھلائی کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن مروجہ ڈھونگ میں ’جمہوریت اور عوام کی ضرورت‘ کھل جا سم سم کی طرح خواہشات کی تکمیل کا دروازہ کھولنے کا منتر ہے۔ یہ اس تصویر کے نقوش ہیں جو پاکستان کی مختصر تاریخ اور تجربات و مشاہدات سے مجسم ہوئی ہے اور جس میں خطوط و زاویوں کی تبدیلی سے ہی نظام میں قبولیت یا دھتکارنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس نقش کی پشت پر ایک تحریر بھی کندہ ہے۔ اسے پڑھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ خوف طاری کرنے والے خود کیسے بدحواس ہیں۔ اس کے نمایاں پہلو کچھ یوں ہیں:

1)ملک میں اگر جمہوری ڈھونگ سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی تو ماورائے آئین اقدام کرنا پڑے گا جسے عرف عام میں مارشل لا کہا جاتا ہے۔ بھلے وقتوں میں اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے اب خوف ہی اصل ہتھیار ہے اور مارشل لا درحقیقت خوف ہی کی علامت ہے۔ یعنی نظام کے نگہبان بھی اصل طاقت سے محروم ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ کہیں یہ راز فاش نہ ہوجائے۔ اگر یہ بات عام ہو گئی کہ یہ تو ڈھونگ ہے، اس سے خوفزہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے تو نقشہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔

2)یہ خوف اپنی جگہ پر جاں گسل ہے کہ ادارے کی یک جہتی اور ڈسپلن کا تاثر بنا رہے۔ اگر اس میں دراڑ پڑ گئی تو سیاست تو ہاتھ سے جائے گی، ان مفادات کا کیا ہو گا جو اس سیاست گری کے ذریعے ملکی معیشت اور انتظامی امور میں حاصل کئے گئے ہیں۔

3)براہ راست حکومت سنبھالنے کا موسم نہیں رہا۔ اگر بساط پر جمائے گئے مہرے غیر فعال ہوگئے تو کھیل الٹا بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی تو جیسے تیسے معاملات کا سارا بوجھ دوسروں پر اور اختیار اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر مہرے ہی ناکارہ ہوئے تو یہ بوجھ خود ہی نہ اٹھانا پڑے۔ پہلے دیکھا جا چکا ہے کہ سامنے آنے کا فائدہ کم، نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اب ایسی صورت پیدا ہوگئی تو کیا ہوگا۔ اس لئے احتیاط ضروری ہے۔

4)بات کھلتی جا رہی ہے کہ نقشہ ہم جماتے ہیں اور سیاست دان انگلی پکڑ کر چلتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی کوئی حقیقی انتخاب کے نام پر میدان میں نکل آیا، اقتدار کے لالچ سے ماورا کوئی ایسا انقلابی جو عوام کے حق کا داعی ہو۔ ایسے امکانات کو کیسے ختم کیا جائے۔

5) ابھی تک تو خوف کی فضا قائم ہے اگر کسی مرحلے پر ’ایکسٹینشن‘ کا پتہ کام نہ آیا تو نظام کیسے چلایا جائے گا۔ نئے صاحب بہادر تو پرانی بساط لپیٹ دیں گے۔

6) مواصلاتی ترقی اور سوشل میڈیا کی بھرمار نے عوام میں شعور پیدا کردیا ہے۔ اس کھیل کے رموز اب عام ہوتے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاست و جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے خلاف رائے مستحکم ہو رہی ہے۔ عوامی پذیرائی کے بغیر ہمارا کھیل کیسے آگے بڑھے گا؟

پس نقش یہ تحریر صاف اور قابل شناخت ہے۔ اسے محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیا اس سے کوئی سبق بھی سیکھا جا سکتا ہے؟ کوئی ہے جو خوف کے اس حصار کو توڑ سکے جس نے سب کو مجبور اور پابند کر دیا ہے۔ یہ حصار ٹوٹے گا تب ہی تصویر بدلے گی۔ اس خوف سے باہر نکلنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔ بس دیکھنا ہے بارش کا پہلا قطرہ کہاں سے ٹپکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments