انفرادی بے اعتدالیاں اجتماعی نقصانات


میر درد نے کیا خوب کہا
آیا نہ اعتدال پہ ہر گز مزاج دہر
میں گرچہ گرم و سرد زمانہ سمو گیا

بظاہر ایک شعر ہی ہے مگر اپنے اندر ایک جہان معنی لیے ہوئے ہے اگرچہ سالہا سال پہلے کہا گیا ہے مگر آج کے دور ہر بھی پورا اترتا ہے گویا یہ بات طے ہے کے انسان اپنی ابتدا ہی سے بے اعتدالیوں کا شکار یا شوقین رہا ہے۔ اب شوقین اور شکار سے یہاں کیا مراد ہے؟ اس بحث میں پڑنے سے پہلے بہتر ہے کہ ایک بار اعتدال کی عام لغوی معنی میں تعریف ہر ایک نظر ڈال لیں۔

اعتدال و میانہ روی کا مطلب ہے : تمام احکام و امور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ شدت ہو اور نہ از حد کوتاہی۔

عام فہم الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کریں تو زندگی کے ہر بنیادی داخلی، خارجی، معاشی، معاشرتی، دینی، ملی، قومی، انفرادی و اجتماعی امور میں ایسی طرز راہ اپنانا یا عملاً ایسے کام انجام دینا جس میں کسی بھی قسم کی شدت یا انتہا پسندی کا شائبہ تک نہ ہو اسے ہم اعتدال کہیں گے۔

اعتدال صرف قومی اور دینی امور میں میانہ روی کا نام نہیں ہے بلکہ ہمارے خیال میں اعتدال کو نافذ کرنے کا اصل مقام ذہن انسانی ہے۔ کردار آدمی ہے

ہمارے یہاں اکثریت اعتدال یا میانہ روی سے مراد خرچ میں میانہ روی کو ہی گردانتی ہے۔

اور اس میں کوئی شک بھی نہیں یقیناً معاشی معاملات میں میانہ روی اعتدال پسندی انسان کو کبھی مفلس نہیں ہونے دیتی۔ اگرچہ ہم بحیثیت قوم اس کام میں بھی باقی اقوام سے پیچھے ہیں دنیا کی بیشتر اقوام کے مقابلے میں پاکستانی روپے پیسے (اگر ان کے پاس وافر مقدار میں ہوں ) تو خرچ کرنا اور قصداً اپنے احباب کو دکھانا اپنی شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ بہت زیادہ مہنگے لباس، بیش قیمت زیورات، بناؤ سنگھار، رسم و رواج، انواع و اقسام کے کھانے، تفریحات وغیرہ اس طرح کی سرگرمیوں پر حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنا ہم۔ اپنی شان و شوکت و امارت کے اظہار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

حتی کہ خوشی کے ساتھ ساتھ غم کے مواقع بھی اس دکھاوے سے بری الذمہ نہیں ہوتے اب تو مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے کیے جانے والے سوئم و چہلم وغیرہ میں بھی اچھی کیٹرنگ سروس سے رجوع کیا جاتا ہے اور حسب موقع ویٹر وغیرہ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے یونیفارم تک مواقع کے حساب سے ڈیزائن ہوتے ہیں۔

شادی بیاہ کی تو بات ہی کیا ہے اس بارے میں لکھنے بیٹھیں تو پڑھنے والے کی بینائی اور لکھنے والے کی روشنائی دونوں ہی اعتدال سے ہٹ جائیں گی اور ساری تحریر شدید بے اعتدالی کا شکار ہو جائے گی۔

لہذا ہم کسی کو سادگی والی میانہ روی کے بارے میں چھیڑنا ہی نہیں چاہتے اس تحریر کا مقصد تو بس اس نکتے پر توجہ دلانا ہے کہ اپنے مزاج میں تھوڑا سا اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ مال و زر کے استعمال کی بے اعتدالیوں کے بھی منفی اثرات تو مجموعی طور پر سارے معاشرے پر ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ حرص و ہوس کی دنیا ہے لہذا کوئی کسی سے نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتا ہر شخص اپنی ذات میں عقل کل ہے۔

مگر وہ بے اعتدالیاں جو ہمارے رویے میں شامل ہوتی ہیں اس کے اثرات سارے سماج پر عفریت کی شکل میں نازل ہوتے ہیں۔

ویسے تو اس رویے کی بے شمار مثالیں ہیں کھانے پینے سے لے کر خیالات کے اظہار تک ہم اتنے زیادہ اگریسو ہیں کہ ”میں“ کے مسمریزم سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے پھر چاہے ہم اپنی پسند کے کپڑے خریدنا چاہتے ہوں یا اپنے لیے حکمران منتخب کرنا چاہتے ہوں

میری پسند کامل ہے، میری چوائس ہی بہترین ہے، میرا وژن ہی سب سے بہترین اور منفرد ہے، جو میری آنکھ دیکھ رہی ہے اس تک کسی اور ذی شعور کی رسائی ہرگز نہیں۔

یہ کیا رویہ ہے؟
ہم انسان ہیں اشرف المخلوقات ہیں مگر ناقص العقل بھی ہیں کامل ذات صرف ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کی ہے

مگر ہم ذہنی بیماری نرگسیت کے اس لیول پر جا پہنچے ہیں جہاں اپنی ذات سے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اور دکھانے کی کوشش کی جائے تو ایسی اختراع گھڑی جاتی ہے جو انسانی عقل کو حیران کر دیں۔

اگر کوئی جرم ہو تو اس کی مخالفت یا حمایت میں دلیل کے بجائے پسند ناپسند پر موقف اپنانا۔
یہ کیسا رویہ ہے؟

جرم سے نفرت کی جاتی ہے اور مجرم کو سزا دی جاتی ہے چاہے جرم کتنا ہی بڑا یا چھوٹا ہو۔ مگر قانونی کارروائی سے پہلے سماج کی عدالت میں انسانوں کے کرداروں کو رگیدنا یا زیر بحث لانا یہ رویہ ہرگز معتدل نہیں ہے۔

جرائم کو ختم کرنے کے لیے پوری سوسائٹی کو مل کر قربانی دینی پڑتی ہے اپنے اندر سے میں نکال کر عقل و شعور کی کسوٹی پر ایک ایک لفظ کو پرکھنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں نور مقدم نامی خاتون قتل ہوئیں جس کی تفتیش جاری ہے مجرم گرفتار ہے۔ مگر ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر رائٹ اور لیفٹ کے خودساختہ کیمپ تشکیل دے دیے گئے ہیں کیوں؟

ایک انسان کا سفاکی سے قتل کیا گیا ہے سر دھڑ سے جدا کیا گیا ہے۔

مگر یہاں ایک انوکھا طبقہ جو نہ جانے کس کے نظریات کی نمائندگی کر رہا ہے اس خاتون کو ایکٹوسٹ اور میرا جسم میری مرضی والی خاتون قرار دے کر اس کے مجرم کے ساتھ تعلقات پر ازخود ریسرچ فرما رہا ہے سینہ گزٹ کی طرح ایک کان سے نکلی دوسرے تک پہنچی والی معلومات اپنا عین انسانی فرض سمجھ کر اسے بذریعہ سوشل میڈیا عوام الناس تک پہنچا رہا ہے۔

جبکہ غلط اور صحیح کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ مقتول کا کردار خواہ کچھ بھی ہو اس نے اپنی چہار دیواری میں جیسے بھی زندگی گزاری ہو اس کے جواب لینے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ اس کا تعلق جس تنظیم سے بھی ہو اس کے خیالات خواہ کتنے ہی آزاد ہوں اسے قتل کرنے کا حق کسی کو نہیں اور بغیر ثبوت کسی کے کردار پر بات کرنے کا حق کسی دوسرے انسان کو ہرگز نہیں ہے۔ جو کام آپ نے اپنی آنکھ سے ہوتے نہیں دیکھا اس پر موشگافیاں بھی کردار کے بد اعتدال ہونے کی دلیل ہیں

خدا کے کاموں میں مداخلت انسانی زندگی کی سب سے بڑی بے اعتدالی ہے۔

اس کے اثرات صرف ایک فرد پر نہیں سارے معاشرے کی مجموعی سوچ پر پڑتے ہیں۔ انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہیں رویے میں شدت سے زیادہ بڑی ذہنی بیماری اور کوئی نہیں اگر آپ کا مخالف ہے تو واجب القتل ہے یہ کہاں کی منطق ہے

مخالفت کا جواب دلیل سے دیں یہ اصل اعتدال پسندی ہے اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا تبلیغ کے ذریعے پھیلایا گیا

دوسروں پر کفر و الحاد کے فتوے لگانا چھوڑ دیں یہ اصل میانہ روی ہے جیو اور جینے دو یہ اصل اعتدال ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سماج میں صرف پراگندگی پھیلے گی اور آنے والی نسلیں بھی نفسیاتی مریض پیدا ہوں گی مولائے کائنات کا فرمان انسان کو دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ انصاف کا معاملہ تو اللہ خود طے کرے گا انسان کی اتنی بساط نہیں کہ وہ انصاف فراہم کر سکے۔ وہ عدل قائم کر لے یہی کافی ہے اور سب سے بہترین بات یہ ہے کہ عدل اور اعتدال کا سب سے پہلے نفاذ اپنی ذات پر کرے ورنہ یہ بظاہر معمولی نظر آنے والی بے اعتدالیاں بہت بڑے اجتماعی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments