محنت اور ویژن


کوئی بھی انسان اچانک یا فوراً کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پیچھے اس کی ان تھک محنت ہوا کرتی ہے۔ اس محنت کے پیچھے اس کا مضبوط ویژن شامل ہوتا ہے۔ یہ ویژن ہی اس کا اصل سرمایہ ہوا کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی کامیابی کے خواب کی تکمیل ہو پاتی ہے۔ یہ ہی وہ ویژن ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا۔

ویژن کوئی آسمانی بلا کا نام نہیں۔ ”مستقبل کی وہ تصویر جسے میں دیکھنا چاہتا ہوں“ ۔

ویژن کہلاتی ہے۔ دبئی کے شیخ محمد نے اپنی ایک کتاب میں ویژن کا ترجمہ ”الرؤیا“ سے کیا ہے۔ مطلب ہے : دیکھنے کی صلاحیت یعنی ”بصیرت۔“  ایک وہ چیز جو نظر کے سامنے ہے۔

اسے دیکھنے میں بچہ، بڑا، مسلمان، کافر سب انسان برابر ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سامنے نظر آنے والی چیز کو آنکھ سے تعبیر نہ کرنا، بلکہ ذہن سے تعبیر کرنا کہ میں دیکھ رہا ہوں۔ یعنی زندگی کے کسی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے احداف کا تعین کرنا ہے۔

مثلاً میں نے فلاں شعبہ میں کام کرتے ہوئے زندگی میں فلاں فلاں اہداف کو حاصل کرنا ہے۔

سب سے بنیادی چیز اہداف کا تعین ہوتا ہے۔ مگر اس پر اکتفاء بھی کافی نہیں۔ بلکہ ان کو حاصل کرنے کے لئے محنت کرنا بھی شرط ہے۔ اکثر طور پر ہم جو ویژن بناتے ہیں، وہ خواب ہوتا ہے۔ ویژن اور خواب میں بڑا فرق ہے۔

خواب میں تمنا یا آرزو ہوا کرتی ہے۔ اس کے پیچھے جو قربانی ہوتی ہے۔ وہ ہم دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے خواب خواب ہی رہ جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی خواب ایسا ہو جس کے لیے ہم قربانی دینے کے لیے تیار ہوں تو یہ ایک خواب سے ویژن بن جاتا ہے۔

ویژن قابل عمل ہونا چاہیے۔ ویژن قلیل المدت بھی ہو سکتا ہے اور کثیر المدت بھی۔

ویژن میں کچھ چیزیں وقت کی وجہ سے اور کچھ وسائل اور صلاحیت کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکتیں۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہیں اس کے اندر ایسی بات تو نہیں جس کی وجہ سے بعد میں ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔ جو قربانی اس ویژن کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہے وہ قربانی میں دے سکوں گا یا نہیں۔

یہ قربانی جانی اور مالی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔ ویژن مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کچھ تو باآسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مگر کچھ کو حاصل کرنے کے آپ کو مختلف قسم کی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔

ویژن دو طرح کے ہوا کرتے ہیں۔ ایک وہ جس میں مسلمان اور کافر مشترک ہیں۔ جو کے مرنے سے پہلے تک کا ہے۔ یہ ویژن ایک حد تک افادیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی کامیابی عارضی ہے۔ مگر دوسرا اور اہم ویژن جو کہ مسلمان کے لیے خاص ہے۔ جس کی کامیابی دائمی ہے۔ وہ مرنے کے بعد کا ویژن ہے۔ پہلے ویژن کے بارے میں ایک بزنس مین کا کہنا تھا ”

میری عمر 35 سال کے قریب ہے۔ مگر جب بھی کسی جنازے میں شریک ہوتا ہوں تو تمنا یہ ہوتی ہے کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔ وہ اس وجہ سے نہیں کہ میں زندگی سے تنگ ہوں یا پھر کسی قسم کی تنگی کا سامنا ہے۔ بلکہ وہ اس لیے کہ میں نے بچپن میں دنیا کا ایک ویژن بنایا تھا۔ اس کو پورا کرنے کے لیے 60 سال کی عمر کا ہدف قائم کیا تھا۔ مگر یہ ویژن 35 سال کی عمر میں پورا ہو گیا۔ اب زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے اب زمین کے نیچے ہی اپنے آپ کو تصور کر کے سکون ملتا ہے ”

آج کے نوجوان اور خاص طور پر پاکستانی نوجوان کا نہ تو کوئی مرنے سے پہلے کا کوئی ویژن ہے۔ نہ ہی مرنے کے بعد کا کوئی ویژن ہے۔ ہر انسان بے مقصد سی زندگی گزارتا نظر آ ہا ہے۔ پھر ہم کہیں کہ ہم کامیابی حاصل کر لیں اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔ تو یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سی بات ہے۔ آج کے اس ترقی کے دور میں جو اقوام ترقی کر رہی ہیں۔

اسکی بہت بڑی وجہ ان کے نوجوانوں کے عظیم ویژن ہیں۔ ان ویژن کی بنیاد پر وہ کسی قسم کے حالات سے نہیں گھبراتے اور مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر میدان میں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ یاد رہے کہ ان وژن کے نہ ہونے کی وجہ سے آج ہم دنیا میں ہر شعبے میں مار کھا رہے ہیں۔ دن بدن ترقی کی بجائے پستی ہمارا مقدر بن رہی ہے۔

وقت ابھی بھی ہاتھ سے گیا نہیں۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”صبح کا بھولا بھٹکا شام کو اگر لوٹ آئے تو اسے بھولا بھٹکا نہیں کہا جاتا“ ۔ اس لئے ابھی سے اپنے احداف کا تعین کریں۔ اپنی آنے والی نسلوں کو بلند اور خوبصورت ویژن دے کر ہمیشہ کے لیے اپنے اور ان کے مستقبل کو روشن بنائیں۔ چاہے وہ مستقبل مرنے سے پہلے تک کا ہو یا جنت میں پہنچنے تک کا، اس لئے ہمت کریں اور آگے بڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments