پاکستان کی اولمپکس میں ناقص پرفارمنس، وزیر اعظم عمران خان کی ’ٹرپل پی ایچ ڈی‘ اور سوشل میڈیا پر انڈیا اور پاکستان میں کھیلوں کی صورتحال کے موازنے


گذشتہ دو ہفتے کے دوران آپ نے پاکستان کی ٹوکیو اولمپکس میں نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی مایوس کارکردگی پر تو بہت بحث دیکھی ہو گی اور ملک میں کھیلوں کے گرتے معیار سے متعلق دہائیاں بھی سنی ہوں گی، لیکن اب یہ بحث سرکاری سطح پر بھی پہنچ چکی ہے۔

گذشتہ روز پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے براہ راست فون کال کے دوران سوشل میڈیا پر ایک سوال میں ویٹ لفٹر طلحہ طالب کی کہانی اور ان کو ملنے والی ناکافی حکومتی مدد کے علاوہ تحریکِ انصاف حکومت میں مختلف کھیلوں کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی کھیلوں میں ٹرپل پی ایچ ڈی ہے اور تسلیم کیا جو وقت کھیلوں کو ملنا چاہیے تھا وہ تاحال نہیں دے پائے۔

انھوں نے کہا کہ ‘شروع دن سے ہمارے مسائل اتنے بڑھ گئے۔۔۔ اس کی وجہ سے جو لوگوں کو تکلیف تھی، مہنگائی تھی جس کی وجہ سے ساری توجہ ان مسائل پر چلی گئی اور جو وقت مجھے کھیلوں کو وقت دینا چاہیے تھا وہ میں نہیں دے سکا۔’

عمران خان نے کھیلوں میں زبوں حالی کی ذمہ داری گذشتہ حکومتوں پر عائد کی اور کہا کہ ‘۔۔۔انھوں نے سپورٹس کے اداروں پر اپنے لوگ بٹھائے، سفارشی بٹھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔’

عمران خان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کے 10 میں سے 9 کھلاڑی و ایتھلیٹ ٹوکیو اولمپکس سے بغیر کوئی میڈل جیتے ناکام لوٹنے والے ہیں جبکہ پاکستان کی ہاکی ٹیم لگاتار دوسرے اولمپکس مقابلوں میں کوالیفائی نہیں کر پائی۔

آج پاکستان کی ایتھلیٹ نجمہ پروین کی ہیٹ مقابلوں میں بھی آخری پوزیشن اور اپنی بہترین کارکردگی سے کہیں زیادہ وقت میں 200 میٹر کی دوڑ مکمل کرنے پر انھیں بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب انڈیا کی ہاکی ٹیم جو سنہ 2012 کے لندن اولمپکس میں آخری پوزیشن پر آئی تھی، اس کی مردوں کی ٹیم نے گذشتہ روز برطانیہ کو جبکہ خواتین کی ہاکی ٹیم نے آج آسٹریلیا کو اپ سیٹ شکست دے کر ٹوکیو اولمپکس کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔

پاکستان کی اس مایوس کاکردگی پر جہاں اکثر افراد دلبرداشتہ تجزیے کر رہے ہیں وہیں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہی اور انڈیا کی کارکردگی ہم سے بہتر کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن پہلے جانتے ہیں کہ عمران خان نے کھیلوں کی موجودہ صورتحال سے متعلق مزید کیا باتیں کی ہیں۔

نجمہ

’نیوزی لینڈ جیسے چھوٹے سے ملک میں پاکستان سے زیادہ کرکٹ گراؤنڈ ہیں‘

عمران خان نے پاکستان کی عالمی سطح پر کھیلوں میں ناقص کارکردگی اور ملک میں کھیلوں سے متعلق اداروں کے برے حالات سے متعلق تفصیل سے بات کی۔

انھوں نے ماضی کی مثالوں کے ذریعے بتایا کہ ’جب ہم چھوٹے تھے تو ہاکی میں پاکستان کدھر تھا، اور کرکٹ میں تو پاکستان نے نیچے سے آ کر ورلڈ کپ جیت لیا اور دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بن گئی۔

’اور پھر سکاش میں جہانگیر خان اور جان شیر خان ہمارے عظیم کھلاڑی تھے جنھوں نے 10، 10 سال دنیا پر راج کیا ہے۔ اور پھر ہم نے اس کا زوال دیکھا، اور بدقسمتی کے ساتھ ہم جو نیچے آئے ہیں یہ دو خاندانوں نے جو اس ملک کی تباہی کی ہے، ایک تو پیسہ لوٹنا ہے، ایک ادارے تباہ کیے ہیں، پیسے لوٹنے کے لیے آپ کو ادارے کمزور کرنے پڑتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں جہاں ادارے اچھے ہوتے ہیں وہاں وہ بہتری لانے کے لیے سوچ رہے ہوتے ہیں، وہ اپنے میرٹ کو بہتر بنانے کے طریقے سوچ رہے ہوتے ہیں، جدید ٹریننگ تکنیک لانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کیونکہ ان اداروں پر پروفیشنلز بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’جب جہانگیر خان اور جان شیر خان دس دس سال سکواش کے چیمپیئن بنے رہے تو کسی نے یہ ہی نہیں سوچا کہ سکواش کو پاکستان میں ایک ادارہ بنایا جائے۔

’جدھر پورے ملک سے مقابلوں کے ذریعے ٹیلنٹ کو اوپر لایا جا سکے، ان دو کے سر پر ہم نے سمجھا کہ ہماری سکواش بہت اچھی ہے، جیسے ہی وہ دو گئے ہماری پرفارمنس نیچے جانے لگی۔‘

عمران خان

عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف پہلی مرتبہ پاکستان میں مرکز میں برسراقتدار آئی ہے

انھوں نے ہاکی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہاکی کا بھی یہی تھا، جب تک گھاس پر ہاکی ہوتی تھی تو ہمارے پاس ٹیلنٹ بھی تھا اور ہم بہت اچھے تھے، لیکن آسٹروٹرف آنے کے بعد جب کھیل تبدیل ہوا تو اس کے ساتھ ہم تبدیل نہیں ہوئے۔

’آج یہ بھی دن دیکھنا تھا کہ پاکستان کی ہاکی کوالیفائی نہ کرے اولمپکس میں۔‘

عمران خان نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہویے کہا کہ ’پاکستان کی سپورٹس کو ایک ادارے کی شکل دینی ہے۔ آخری دو سالوں میں میں کھیلوں پر زور لگانے لگا ہوں، جس میں ہاکی کے مسائل بھی دیکھے جائیں گے اور کرکٹ پر بھی توجہ دی جائے گی۔‘

عمران خان نے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں 22 کروڑ کے ملک میں اتنا برا حال ہے اور وہاں نیوزی لینڈ جو صرف چند لاکھ کی آبادی والا ملک ہے وہاں پاکستان سے زیادہ گراؤنڈ ہیں۔

’ان کی ٹیم انڈیا کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ ہرا رہی ہے، جبکہ ون ڈے ورلڈکپ کے فائنل تک رسائی حاصل کر رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ادارے مضبوط ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے 10 میں سے نو کھلاڑی اولمپک مقابلوں سے باہر، ارشد ندیم آخری امید

منور الزماں اور منظور الحسن کو کوئی ڈاج کیسے دیتا؟

ٹوکیو اولمپکس 2020: میڈل ٹیبل پر کون آگے؟

’پاکستان اور انڈیا دو مختلف راستوں پر ہیں‘

ادھر پاکستان میں گذشتہ چند روز سے اولمپکس مقابلوں میں انڈیا کی فتوحات پر بھی بات کی جا رہی ہے اور ان کی مردوں اور خواتین کی ہاکی ٹیمیں اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کے بہت قریب پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل انڈیا کی بیڈمنٹن کھلاڑی پی وی سندھو نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

ایک صارف سارہ وارث نے جب ٹویٹ کیا کہ انڈیا کے نو میں سے سات اولمپکس میڈلز خواتین نے جیتے ہیں تو پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ کے میڈیا مینیجر اور کھیلوں پر تجزیے کرنے والے حسن چیمہ نے لکھا کہ ’مجھے لگتا تھا کہ اگر انڈیا نے کھیلوں میں اچھی کاکردگی دکھائی تو ہمارے فوجی اور بابو شاید اس سے نفرت کی بنیاد پر ہی کچھ کرنے کی کوشش کریں گے اور ہمیں یہ سمجھ آ جائے گی کہ ہاکی اور کرکٹ میں تنزلی کی وجہ بدعنوانی نہیں، نظام کے مسائل ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’لیکن جب میں ایسی خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا دو مختلف راستوں پر ہیں۔

ایک صارف اسامہ نے لکھا کہ دل بہت کرتا ہے ایک اولمپک میڈل جیت جائیں تاکہ ہم اتنے سارے ممالک میں، اتنے زیادہ کھیلوں میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اگر جیتیں نہ بھی تو میڈل جیتنے کی دوڑ میں ہی آ جائیں تو دل خوش ہو جاتا ہے۔

عمران خان کی کھیلوں میں تین پی ایچ ڈیز سے متعلق بیان پر بھی اکثر صارفین نے ردِ عمل ظاہر کیا۔ عبدالقیوم کنڈی نامی صارف نے لکھا کہ ’ان تین پی ایچ ڈی کے حامل وزیراعظم کے دور میں اولمپکس میں پاکستان کو صفر تمغے ملے’

ایک صارف نے لکھا کہ ’کیا عمران خان نے سارے کام خود ہی کرنے ہیں۔ وہ تین سالوں میں یہ بھی نہیں سیکھ سکے کہ انھوں نے ایک نظریہ دینا اور اس حوالے سے ٹیم کو کام دینا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp