افغانستان کی صورتحال یا ملکی زرمبادلہ میں عدم توازن، پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


ڈالر
پاکستان میں گزشتہ دو مہینوں کے دوران مقامی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 163 روپے کی سطح تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان مسلسل جاری ہے۔

امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملکی شرح مبادلہ عدم توازن کا شکار ہوا ہے اور درآمدی مصنوعات مزید مہنگی ہوئی ہیں۔ امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کے باعث ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک سے منگوائی جانی والے گندم اور چینی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے بارے میں کرنسی بازار میں کام کرنے والے افراد مختلف وجوہات بتاتے ہیں جن میں دیگر عوامل کے ساتھ پاکستان کے پڑوس میں افغانستان میں حکومت اور طالبان میں جاری جنگ بھی ہے۔

کرنسی بازار میں کام کرنے والے افراد اور ماہرین کے مطابق افغانستان کی بگڑتی صورت حال نے پاکستان کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دے رکھا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر بھی کم آ رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال پاکستان انوسٹمنٹ بانڈ میں جولائی کے مہینے میں آنے والی زیرو سرمایہ کاری ہے جو ان کے مطابق عالمی سرمایہ کاروں کی جانب سے محتاط پالیسی کی علامت ہے۔

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟

ملکی کرنسی بازار میں امریکی ڈالر کی قیمت 163 پاکستانی روپے کی حد عبور کر چکی ہے اور اگر اس کا مقابلہ مئی کے مہینے سے کیا جائے تو مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں سات فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔

رواں برس مئی کے مہینے میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 152 پاکستانی روپے تھی جو 2020 میں 168 روپے تک اوپر جا کر واپس اس سطح پر گری تھی تاہم مئی کے بعد ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا اور دو مہینوں میں اس کی قدر میں اضافہ ہو کر 163 روپے کی حد سے تجاوز کر گئی۔

ان دو ماہ میں ڈالر کی قیمت ملکی کرنسی کے مقابلے میں گیارہ روپے بڑھ گئی ہے۔ کرنسی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق 30 جون 2021 پر مالی سال کا اختتام جاری کھاتوں کے خسارے کے ساتھ ہوا جس نے مقامی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں کافی کم کیا۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟

اس سال جون اور جولائی کے مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کو کرنسی کے ماہرین مختلف وجوہات سے جوڑتے ہیں جن میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب جو درآمدات کے لیے ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی درآمدات میں حالیہ مہینوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈالر

تحریک انصاف کی حکومت جو درآمدی بل میں کمی لا کر تجارتی خسارے اور جاری کھاتوں کے خسارے کو کم کرنا چاہتی ہے اسے گندم، چینی اور کپاس کی بڑے پیمانے پر درآمد کرنا پڑی جس نے درآمدی بل میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔

یاد رہے کہ پاکستان کا گزشتہ مالی سال کا جاری کھاتوں کا خسارہ 1.8 ارب ڈالر تھا جو زیادہ درآمدات کی وجہ سے خسارے میں رہا۔

ایکسچیج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صرف پچھلے ماہ کی درآمدات کو لیا جائے تو یہ چار بلین ڈالر سے بڑھ کر چھ بلین ڈالر ہو گئیں جس کی وجہ سے ڈالر زیادہ بڑی تعداد میں بیرون ملک گیا اور اس سے مقامی کرنسی پر اثر پڑا۔‘

انھوں نے کہا اگرچہ اس میں مشینری کی درآمدت بھی ہے جو ملک کے لیے اچھا ہے تاہم اس کے گیس اور تیل کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتے نرخوں کی وجہ سے بھی اس کی درآمد پر زیادہ ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’یہ صحیح ہے کہ تجارتی خسارے نے ڈالر کے مقابلے میں مقامی روپے پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کیونکہ ڈالروں کی طلب بہت زیادہ رہی۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ اطلاعات بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بنی کہ پاکستان کو اس سال بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے 20 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔‘

’ان اطلاعات کی وجہ سے درآمد کنند گان کی جانب سے زیادہ ڈالر خریدنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا تاکہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے سے پہلے وہ سستا ڈالر خرید لیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کے سٹیٹ بینک کے گورنر نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے 20 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔

ماہر معیشت خرم شہزاد نے بیرونی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی ضرروت کو امریکی ڈالر کی قدر میں موجودہ اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔

ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سال 20 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگی بڑی ہے تاہم ملک کو اس سال 87 ارب ڈالر کی آمد متوقع ہے جس میں برآمدات، ترسیلات زر، سرمایہ کاری اور کچھ دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والے ڈالر ہوں گے۔‘

افغانستان کی صورت حال کس طرح ڈالر کی قدر میں اضافہ کر رہی ہے؟

افغانستان

پڑوسی ملک افغانستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی نے پاکستان کی کرنسی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور بگڑتی صورت حال کے باعث پاکستان سے افغانستان جانے والی برآمدات مکمل طور پر رک گئی ہیں تو دوسری جانب خطے کی صورت حال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی۔ جو جولائی کے مہینے میں پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز یعنی پی آئی بی میں ہونے والی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار سے واضح ہے۔

یہ بانڈ حکومتی سیکورٹی ہوتے ہیں جن میں آنے والے سرمائے کو پاکستان حکومت بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

جولائی کے مہینے کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے مہینے میں ان بانڈز میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی حالانکہ ان کا شرح منافع بہت پرکشش ہے اور دوسری مارکیٹوں کے مقابلے میں ان میں سرمایہ کاری کا بہت اچھا ریٹرن حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان بانڈز میں ہونے والی سرمایہ کاری میں سے جولائی کے مہینے میں 8.3 ملین ڈالر نکل گئے جس کی وجہ سے ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

کرنسی کے ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان میں بھی سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں بدامنی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑ سکتا ہے۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال نے بھی ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے بذریعہ سٹرک تجارت کی وجہ سے مصنوعات جلد پڑوسی ملک پہنچ جاتی ہیں اور ان کی ادائیگی بھی جلد مل جاتی ہے تاہم گزشتہ کئی ہفتوں سے برآمدات رک گئی ہیں جس کی وجہ وہاں کے حالات ہیں۔

’پاکستان کی افغانستان کو ڈیڑھ ارب سے دو ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات ہیں جو اس وقت رکی ہوئی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

بیرون ملک پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں لانے کی سکیمیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

آج کل ڈالر اور روپے کے درمیان کیا چل رہا ہے؟

پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ کیا ہے؟

’پیسہ ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ رہا‘

ملک بوستان نے بھی افغانستان کی صورت حال کو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا ایک سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار موجودہ صورت حال کی وجہ سے خوفزدہ ہے اور وہ پاکستان میں بھی سرمایہ کاری سے کترا رہا ہے۔

تعمیراتی شعبہ

تعمیراتی شعبے کے لیے ایمنسٹی سکیم کے خاتمے نے کس طرح اثر ڈالا؟

فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے 30 جون 2021 کو ختم ہونے والی تعمیراتی شعبے کے لیے ایمنسٹی سکیم کو بھی روپے کی قدر گرنے کی ایک وجہ قرار دیا۔

’اس سکیم کے تحت کافی بڑی تعداد میں ڈالر پاکستان آئے تاہم اس کے اختتام نے ڈالروں کی آمد کو روک دیا ہے۔‘

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے اس سکیم کی توسیع کے لیے بات کر رہی ہے تاکہ بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اس شعبے میں جو سرمایہ کاری آ رہی تھی اسے جاری رکھا جائے۔

’حکومت دسمبر تک اس میں اضافہ چاہتی ہے اگر اس میں توسیع ہو جاتی ہے تو اس سے روپے کی قیمت کو استحکام مل سکتا ہے۔‘

کورونا ویکسین کی خریداری

اسی طرح حکومت کی جانب سے کورونا ویکسین کی بیرون ملک سے خریداری نے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ کیا ہے۔

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بیرون ملک سے جو ویکسین خریدی گئی اس نے ڈالر کی طلب میں اضافہ کیا تو مستبقل میں مزید خریداری اس میں اضافے کا سبب بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp