جے پور کے آما گڑھ قلعے پر ہندو تنظیمیں اپنا پرچم کیوں لہرانا چاہتی ہیں؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی


انڈیا

جے پور کا آما گڑھ قلعہ ان دنوں ہندو تنظیموں اور مقامی قبیلے مینا کے لوگوں کے درمیان تنازعے کا محور بنا ہوا ہے۔

اٹھارویں صدی کے اس قلعے کے بارے میں مینا برادری کا دعویٰ ہے کہ یہ قلعہ ان کے آبا و اجداد نے تعمیر کرایا تھا اور وہاں واقع مندر ان کے قبیلے کی دیوی کا مندر ہے۔

وہاں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی نصب ہیں۔ کچھ عرصے قبل وہاں مقامی ہندو تنظیموں نے ہندو مذہب کا گیروا پرچم لہرا دیا تھا جس کے بعد قبائلی مینا برادری میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ہندو تنظیمیں ان کے قبائلی دیوی دیوتاؤں کو ہندو مذہب میں ضم کر لینا چاہتی ہیں۔ مینا قبیلے کے لوگوں نے اتوار کے روز آما گڑھ کے قلعے پر مینا برادری کا سفید پرچم لہرا دیا ہے۔

مینا برادری کے بہت سے لوگ ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے اپنے روایتی دیوی دیوتا اور مذہبی رسم و رواج ہیں جو ہندو مذہب سے مختلف ہیں۔

انڈیا کے شہر جے پور کے مضافات میں واقع آما گڑھ قلعے کا یہ تنازع رواں برس جون میں اس وقت شروع ہوا جب قلعے میں واقع ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو بعض شر پسندوں نے توڑ دیا اور ان کی بے حرمتی کی۔

اس معاملے میں بعض مقامی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وشو ہندو پریشد کے رہنما بھارت شرما نے اس واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ واردات مقامی رکن اسمبلی رفیق خان کی ایما پر بین المذاہب ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے کی گئی تھی۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ’اب جب وہاں مینا برادری کا پرچم لہرا دیا گیا ہے تو یہ تنازع ختم ہو چکا ہے۔‘

مینا برادری کا کیا کہنا ہے؟

مینا برادری کا کہنا ہے کہ آما گڑھ کا قلعہ جے پور کے راجپوت راجاؤں سے قبل ایک مینا راجہ نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ صدیوں تک ان کا مقدس مقام رہا ہے۔ لیکن رواں برس جون میں ہندو مورتیوں کی بے حرمتی کے بعد وہاں 14 جون کو مذہبی رہنماؤں کی موجودگی میں نئی ہندو مورتیاں نصب کی گئیں۔ اسی روز وہاں ایک زعفرانی پرچم یعنی بھگوا جھنڈا لہرا دیا گیا۔

21 جون کو مینا قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کی قیادت میں مینا برادری نے ہندو پرچم کو اتار دیا۔ پرچم اتارتے وقت وہ پھٹ گیا جس سے دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔

ہندو تنظیموں نے رکن اسمبلی کے خلاف ہندوؤں کا پرچم پھاڑنے اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ درج کرایا۔ اس کے جواب میں رکن اسمبی رام کیش مینا نے بھی ہندو تنظیموں کے خلاف مینا قبیلے کے مذہبی اورثقافتی اداروں پر قبضہ کرنے کا مقدمہ درج کروا دیا۔

اتوار کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان ڈاکٹر کروڑی لال مینا نے اپنے حامیوں کے ساتھ خفیہ طریقے سے قلعے پر چڑھ کر مینا برادری کا سفید پرچم لہرا دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں مینا برادری کے بہادر نوجوانوں کے ساتھ، سبھی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے آما گڑھ کے قلعے میں داخل ہوا اور قلعے پر مینا سماج اور مینا بگھوان کا پرچم لہرا دیا۔‘

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وشو ہندو پریشد، ہندو تنظیمیں اور مینا قبائلی دونوں کو ہی حکمراں جماعت بی جے پی کی حمایت حاصل ہے۔ مینا برادری راجستھان کی ایک بااثر قبائلی برادری ہے۔ ملازمت اور پارلیمنٹ و اسمبلی میں ریزرویشن حاصل ہونے کے سبب یہ برادری سماج میں خاصہ اثر و رسوخ رکھتی ہے۔

انڈیا

ان کا الزام ہے کہ ہندو تنظیمیں ان کے دیوی دیوتاؤں کو اپنے مذہب میں ضم کر لینا چاہتی ہیں۔

انڈیا کی مختلف ریاستوں، بالخصوص جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، راجستھان اور شمال مشرقی ریاستوں میں بڑی تعداد میں قبائلی آباد ہیں۔ ملک میں ان کی آبادی کا تناسب سا‎ڑھے سات فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریاست پٹودی: ہندو مسلم بھائی چارے کی صدیوں کی تاریخ پر ’ہندوتوا‘ کا سایہ؟

اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کا نیا آرڈیننس آتے ہی ’لو جہاد‘ کے الزام میں مقدمے

’انڈیا کا سندھ‘ جہاں رہنے والوں کی کاروباری ذہانت پر باقاعدہ تحقیق کی گئی

انڈیا میں ‘حقیقی انڈین ہونے کے لیے ہندو ہونا لازمی ہے‘

بیشتر قبائلی آبادی کے اپنے دیوی دیوتا اور رسم و رواج ہوتے ہیں جو عموماً ہندو مذہب سے مختلف ہیں۔ آزادی سے قبل عیسائی مشنریوں کے زیر اثر بڑی تعداد میں قبائلیوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا لیکن گذشتہ تین عشرے سے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے قبائلی علاقوں میں عیسائی مشنریوں کی طرح کام کیا ہے۔

انڈیا

وہاں انھوں نے سکول اور طبعی مراکز کھولے، عبادت کے لیے مندر تعمیر کروائے اور انھيں بڑی تعداد میں ہندو دھرم کے دھارے میں لانے میں کامیابی حاصل کی۔

لیکن ریزرویشن اور دوسرے حکومتی مراعاتی اقدامات کے سبب بہت سی قبائلی برادریاں سماج میں اب کافی بااثر ہو چکی ہیں اور اب وہ اپنی انفرادی مذہبی اور قبائلی شناخت کو اجاگر کرنے پر زور دیتی ہیں۔

آما گڑھ قلعہ پر گیروا یا زعفرانی پرچم لہرانا اگر ہندو مذہب کی برتری مسلط کرنے کی کوشش تھی تو اس کی مزاحمت اسی انفرادی قبائلی شناخت کے اظہار کی علامت تھی۔

آما گڑھ کے قلعے پر اس وقت مینا برادری کا سفید پرچم لہرا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp