کوئٹہ کا معروف ’بھوت بنگلہ‘ جسے کسی بے گھر نے بھی اپنا ٹھکانہ بنانا پسند نہیں کیا

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


بھوت بنگلہ

کسی بے گھر نے بھی اس عمارت کو اپنا مسکن نہیں بنایا شاید اس کی سب سے بڑی وجہ اس میں ’بھوتوں‘ کی موجودگی کا خوف تھا

پاکستان میں بھوت بنگلوں کی کہانیاں تو آپ نے بہت سُنی ہو گی اور شاید اُن میں سے بہت سی کہانیاں خیالی اور فرضی ہی ہوتی ہیں لیکن بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جس ’بھوت بنگلے‘ کی کہانی ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں وہ کافی دلچسپ ہے۔

کوئٹہ کے اس بھوت بنگلے کو 30 جون 2021 کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی عمارت کی کہانی ہے جو ملبے کا ڈھیر بننے سے پہلے تین دہائیوں تک ’بھوت بنگلے‘ کی شہرت کے ساتھ ناصرف قائم رہی بلکہ غیر آباد بھی۔

تین دہائیوں قبل جس انداز میں جدید مکان تعمیر ہوتے تھے، یہ بنگلہ بھی اسی انداز میں تعمیر ہوا تھا لیکن اپنے قیام سے لے کر ملبے کا ڈھیر بننے تک اس عمارت پر ویرانی ہی راج کرتی رہی۔

یہ عمارت پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ملکیت تھی۔

اپنے دور کا یہ جدید بنگلہ گذشتہ 25 سے 30 برس تک ویران کیوں رہا اور اس کی ’بھوت بنگلے‘ کی حیثیت سے شہرت اختیار کرنے کی وجہ کیا تھی، یہ جاننے کے لیے ہم خود اس عمارت میں گئے۔

چونکہ چند روز قبل اس بنگلے کی بیرونی دیوار کو گرایا جا چکا تھا اسی لیے ہمیں اس بنگلے میں داخل ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔

اگرچہ یہ عمارت شہر کے مرکزی علاقے سے بہت زیادہ دور نہیں مگر جس ویرانی کا یہ منظر پیش کر رہی تھی اس سے بالکل یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ کسی شہری علاقے کا حصہ ہے۔

یہ بنگلہ لگ بھگ تیس سال قبل سبزل روڈ پر چار ہزار مربع فٹ رقبے پر تعمیر کیا گیا تھا۔

اس بنگلے کے ساتھ والے گھر میں مقیم بزرگ شخص نے بتایا کہ انھوں نے اس عمارت کو 25 سے 30 سال سے بند اور ویران ہی پایا ہے۔

اس عمارت کے بھوت بنگلہ کے طور پر شہرت اختیار کرنے کی وجوہات زیادہ تر اس کے مالک ہی بتا سکتے تھے لیکن اس بزرگ شخص نے دو تین افراد کے نام مالک کے طور پر گنوائے جس کے بعد ہم ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

پہلے اسپنی روڈ، بعد میں خداداد روڈ اور پھر اس کے بعد آرچر روڈ گئے لیکن اصل مالک کا سراغ نہیں ملا۔

اس کے بعد واحد راستہ تحصیل کا رہ گیا۔ جب ہم تحصیل پہنچے تو اس کے مالک کا پوچھنے کے لیے ایک نہیں بلکہ چار، پانچ پٹواریوں سے واسطہ پڑا۔

بھوت بنگلہ

عمارت میں موجود پانی کا ٹینک

بھوت بنگلے کا نام سنتے ہی چہروں پر مسکراہٹ

پٹواری صاحبان جس طرح لوگوں کے ہجوم میں گھرے تھے اور اپنے مخصوص رجسٹروں میں جس طرح گم تھے، اس سے یہ بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی بات پر مسکرائیں گے لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بھوت بنگلے کا مالک کون ہے تو ان میں سے کوئی بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا بلکہ ایک نے تو زور سے قہقہہ بھی لگایا اور کہا کہ ’کاش اس کا مالک مل جاتا تو میں اس کے ساتھ سیلفی بنا لیتا۔‘

بالاخر ڈھائی تین گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ فائل ہمارے سامنے آ گئی جس میں بھوت بنگلے کے نام سے مشہور اس عمارت کے مالک کے طور پر دو نام درج تھے۔

21 ستمبر1987 کو اس عمارت کی ملکیت کا اندراج حمید ولد مرزا ساجد علی بیگ نامی شخص کے نام پر ہوا تھا جبکہ 22 نومبر 1990 کو یہ عمارت پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نام پر منتقل ہوئی۔

کیا بھوت مل گیا؟

چونکہ گذشتہ 25 سے 30 سال تک یہ تاثر عام رہا کہ یہ بنگلہ ’بھوتوں‘ کی موجودگی کی وجہ سے آباد نہیں ہو سکا جس کے باعث جب تک ہم شوٹنگ کے لیے بھوت بنگلے کے اندر موجود رہے تو سڑک سے گزرنے والا ہر شخص تجسس بھری نگاہوں سے ہماری طرف دیکھتا رہا۔

ایک رکشہ چلانے والا شخص بھی بنگلے کے سامنے آ کر رُکا اور زور سے آواز لگاتے ہوئے ہم سے پوچھا کہ ’کیا کوئی بھوت ملا؟‘

اس دوران دو تین افراد اندر بھی آ گئے اور ہم سے مختلف سوالات پوچھتے رہے جن میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کارلیسن یوسف بھی تھے۔

کارلیسن یوسف کی دلچسپی اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ تھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ عیسٰی نگری کے رہائشی ہیں جو بھوت بنگلے کے بالکل قریب واقع ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس عمارت کے سامنے سے تو ہر روز ان کا گزرنا ہوتا تھا اور وہ بچپن سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ یہاں ’سایہ‘ ہے۔

بھوت بنگلہ

عمارت کو گرانے کا کام جاری ہے

کارلیسن یوسف کے مطابق ان کی اس عمارت کے بارے میں دلچسپی اس وقت بڑھی جب سنہ 2016 میں ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام ’وہ کیا ہے‘ کی ٹیم نے اس عمارت کے بارے میں پروگرام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے بعد انھوں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ آﺅ بھوت بنگلہ دیکھ کر آئیں لیکن وہ ڈر کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں آئے۔

انھوں نے بتایا کہ اس عمارت کے بارے میں لوگوں کی رائے منقسم رہی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں ایسا ویسا کچھ نہیں مگر چند کے بقول یہ عمارت کسی غیر مرئی مخلوق کے زیر اثر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب چند روز پہلے میرے بھائی نے یہ دیکھا کہ اس کو گرایا جا رہا ہے تو انھوں نے مجھے بتایا جس پر ہم دونوں یہاں پہنچے۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہاں آنے کے بعد ہم نے بنگلے کے ساتھ رہائش پذیر ہمسایوں سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہاں کوئی غیر معمولی اثرات محسوس نہیں کیے تاہم انھوں نے یہ بتایا کہ اس میں دو مقامات یعنی اس کا تہہ خانے اور ٹینکی میں ’اثرات‘ ہیں۔

کارلیسن یوسف نے دعویٰ کیا کہ بھوت بنگلے کے پڑوس میں بسنے والوں نے انھیں بتایا کہ اس عمارت کی پانی کی ٹینکی سے کچھ عرصہ قبل ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ جب یہ لاش برآمد ہوئی تو یہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ’میں نے ٹینکی کے اندر اور تہہ خانے سمیت دیگر مقامات کی بھی تصاویر لیں تھیں۔‘

کارلیسن یوسف نے بتایا کہ جب گذشتہ دنوں انھوں نے اس عمارت کو توڑنے والے مزدوروں سے یہ پوچھا کہ انھوں نے کوئی غیر معمولی چیز محسوس تو نہیں کی تو انھوں نے بتایا کہ انھیں کوئی غیر معمولی چیز محسوس نہیں ہوئی لیکن ’پانی کی ٹینکی سے آوازیں` سنائی دیتی ہیں۔

عمارت پر کیڑوں کی یلغار

بھوت بنگلے کے ساتھ حاجی نذیر احمد بنگلزئی کی رہائش گاہ موجود ہے۔ ہمارے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں ان کے قبیلے کے لوگ سنہ 1935 سے آباد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ پہلے ویران تھا اور یہاں پر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔

بھوت بنگلہ

’بھوت بنگلے‘ کو مزدور توڑ رہے ہیں

’میں نے اس بنگلے کو اپنے سامنے بنتے دیکھا۔ بچپن سے ہم سنتے رہے کہ یہاں بھوت ہیں لیکن ہم نے خود ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی اور نہ محسوس کی بلکہ اس کی چابی شروع میں ہمارے پاس ہوتی تھی اور ہم اپنا کھیتی باڑی کا سامان اس میں رکھتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ہماری فصلوں میں کیڑے پڑ گئے تو ہم نے فصلوں کو بچانے کے لیے سپرے کیا۔

’چونکہ اس وقت کھیتوں کے درمیان بھوت بنگلہ واحد عمارت تھی تو کیڑوں نے اس پر یلغار کی، اور یہ اتنی زیادہ تعداد میں تھے ان کی وجہ سے عمارت کی دیواریں نظر نہیں آتی تھیں۔ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے جب یہ کیڑے مر گئے تو اس بنگلے کی دیواریں کالی ہو گئیں۔‘

حاجی نذیر احمد نے بتایا کہ اس وقت الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان میں ’نمروُد کا ٹھکانہ‘

’ملکہ کے محل پر بھوتوں کا سایہ‘

یورپ کا بھوت ٹرین سٹیشن پھر سے زندہ ہو گا؟

ان کا کہنا تھا کہ کیڑوں کی مرنے کے بارے میں سُن کر جنگ کا ایک فوٹو گرافر آیا اور تصاویر بنا کر لے گیا۔

’جب اگلے روز تصویر کے ساتھ اخبار میں یہ خبر آئی کہ کیڑے بھوتوں کی وجہ سے مر گئے تو مقامی لوگوں میں یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ یہ واقعی میں بھوت بنگلہ ہے۔‘

دو اموات

حاجی نذیر احمد بنگلزئی نے بتایا کہ جب یہ عمارت ڈاکٹروں کی تنظیم نے خرید لی تو وہ بھی اس کو آباد تو نہیں رکھ سکے لیکن انھوں نے اس کی حفاظت کے لیے یہاں ایک چوکیدار رکھا۔

’چونکہ کوئی اس عمارت میں رہائش اختیار کرنے کے لیے نہیں آتا تھا اس لیے چوکیدار اپنے گدھے کو بھی عمارت کے اندر ہی باندھتا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ چوکیدار کی موت اسی عمارت میں ہوئی اور جب چوکیدار مر گیا تو ان کی موت کے کچھ عرصے بعد گدھا بھی مر گیا۔

ڈاکٹر آصف انور شاھوانی

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر آصف انور شاہوانی عمارت میں بھوتوں کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں مگر بتاتے ہیں کہ لڑکپن میں وہ یہاں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کرتے تھے

’میرے خیال میں چوکیدار کے مرنے کے بعد گدھے کو خوراک وغیرہ نہیں ملی ہو گی، تو وہ بھی مر گیا مگر اس کے بعد علاقے میں یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ بھوت اِدھر کسی کو نہیں چھوڑتے۔ لوگوں کو ہم نے یہ کہتے سُنا کہ دیکھو پہلے بھوت نے چوکیدار کو بعد میں ان کے گدھے کو بھی مار دیا۔‘

حاجی نذیر نے بھی کارلیسن یوسف کی اس بات کی تصدیق کی کہ اس عمارت کی ٹینکی سے ایک انسانی ڈھانچہ برآمد ہوا تھا۔

’ہوا یوں تھا کہ اس عمارت کے گردونواح میں بچے پتنگ اڑا رہے تھے تو ان میں کسی کی پتنگ اس عمارت کے اندر گر گئی۔ جب بچے اندر آئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی پتنگ تو ٹینکی کے اندر ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب بچوں نے پتنگ کو نکالنے کے لیے کوئی تار وغیرہ ٹینکی کے اندر ڈالی تو اسے اوپر کھنیچتے ہوئے ایک انسانی ٹانگ کی ہڈی اس کے ساتھ اوپر آئی، جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔

پولیس والے بھی خوفزدہ

حاجی نذیر احمد بنگلزئی نے بتایا کہ جب پولیس والے لاش کی موجودگی کی خبر سُن کر یہاں آئے تو وہ اندر جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’پولیس والے میرے پاس آئے تو میں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، میں آپ لوگوں کے ساتھ اندر جاﺅں گا اور لاش کو نکالنے میں مدد کروں گا۔‘

حاجی نذیر احمد کا کہنا تھا کہ انھوں نے لاش کو ٹینکی سے نکال کر اسے پولیس کے حوالے کیا جو صرف ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل چکی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ جو کپڑے نکلے تو ان کی شلوار ایسی تھی، جسے بلوچ نوجوان پہنتے ہیں جبکہ لاش کے ساتھ برآمد ہونے والے کپڑوں میں ایک موبائل فون بھی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ایدھی کے رضا کار لے گئے جبکہ موبائل فون اور کپڑے پولیس اہلکار لے گئے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لاش کس کی تھی۔

حاجی نذیر نے بتایا کہ پولیس والوں سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس شخص کو کس نے قتل کر کے اس کی لاش یہاں ٹینکی میں ڈالی تاکہ کسی کو نظر نہ آئے یا اس کی کچھ اور وجوہات تھیں لیکن یہ ایک اور واقعہ تھا جس نے اس عمارت کے بھوت بنگلہ ہونے کے بارے میں پراسراریت کو بڑھاوا دیا۔

بھوت بنگلے کا ملبہ

یہ عمارت اپنی تعمیر کے بعد سے ویران رہی اور اسے گرانے سے پہلے اس کے ملبے پر تنازع بھی ہوا

بھوت بنگلے کے گرانے سے پہلے پیش آنے والا واقعہ

حاجی نذیر احمد نے اس عمارت کے حوالے سے دو مزید دلچسپ واقعات سناتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ رات کو کسی نے اس عمارت کے اندر آگ لگائی تھی۔

’اس کے جنوب مغرب میں بروری پہاڑ پر رہائش پزیر لوگوں کے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں نے اس آگ کو دیکھا تھا جس پر یہ افواہ پھیل گئی کہ دیکھو بھوت بنگلے سے آگ نکل رہی ہے۔‘

اگرچہ حاجی نذیر احمد بنگلزئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اس عمارت میں بھوت ہیں لیکن انھوں نے جتنے بھی واقعات سنائے ان میں سے ہر ایک میں بھوتوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خوف اور ڈر کا پہلو جڑا ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ چند روز بیشتر سڑک کی توسیع کے منصوبے کے حوالے سے بعض سرکاری اہلکار اس عمارت کا جائزہ لینے کے لیے اندر گئے، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔

’یہ لوگ جب عمارت کے تہہ خانے کو دیکھ رہے تھے تو اس عمارت کی چھت پر شاید کسی نے باہر سے پتھر وغیرہ پھینکے جس سے یہ لوگ خوفزدہ ہو گئے۔‘

حاجی نذیر احمد کے بقول یہ خوف اتنا تھا کہ مرد اہلکار سب سے پہلے تہہ خانے سے باہر بھاگ نکلے اور انھوں نے خاتون کو پیچھے چھوڑ دیا اور جلدی نکلنے کی کوشش میں خاتون کی پیر میں موچ آ گئی۔

اس عمارت کی ناگفتہ بے حالت کو دیکھ کر کوئی بھی یہ تاثر قائم نہیں کر سکتا کہ یہ ڈاکٹروں کی کسی تنظیم کی ملکیت ہے۔

کوئٹہ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں منشیات کے عادی افراد ہیں جو شہر میں ایسے مقامات میں قیام پزیر ہوتے ہیں جہاں عام لوگ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن منشیات کے عادی افراد نے بھی اس عمارت کو اپنی آماجگاہ نہیں بنایا۔

اسی طرح جو افغان پناہ گزین خیموں میں رہتے ہیں وہ کسی خالی یا زیر تعمیر عمارت کو نعمت سے کم نہیں سمجھتے لیکن کسی بے گھر نے بھی اس کو اپنا مسکن نہیں بنایا شاید اس کی سب سے بڑی وجہ اس میں بھوتوں کی موجودگی کا خوف تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وہ قدیم گمشدہ شہر جو دوبارہ بسنے لگا ہے

لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار

تہہ خانہ

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر آصف انور شاہوانی عمارت میں بھوتوں کی موجودگی ماننے کو تیار تو نہیں لیکن انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں کے باعث وہ خود اس جگہ سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید ماضی میں ہمارے دوستوں کی کمزوریوں کی وجہ سے اس کا خیال نہیں رکھا جا سکا جس کی وجہ سے لوگ یہاں آئے، اس کے دروازے اور کھڑکیاں لے گئے اور لوگوں نے مشہور کیا کہ یہ بھوت بنگلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روڈ کی توسیع کے منصوبے کی زد میں آنے کی وجہ سے اب تو اسے گرا دیا گیا اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ بن گیا لیکن اس کی اراضی کا چھوٹا سا حصہ بچ گیا ہے۔

عمارت گرانے سے پہلے ملبے پر تنازع

جہاں یہ عمارت تعمیر کے مکمل ہونے سے لے کر ملبے کا ڈھیر بننے تک ویران رہی، وہاں اسے گرانے سے پہلے اس کے ملبے پر بھی تنازع کھڑا ہوا۔

ڈاکٹر آصف شاہوانی نے بتایا کہ چونکہ یہ طویل عرصے سے ویران تھی اور جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے گرایا جا رہا ہے تو گردونواح کے کئی لوگ اس کے دعویدار بن گئے اور اس کے ملبے کو تین لاکھ روپے سے زائد میں فروخت کیا گیا۔

’جب مزدوروں نے اس کو گرانا شروع کیا تو کسی ڈاکٹر نے انھیں دیکھا اور پھر مجھے فون کیا۔ جب ہم یہاں آئے تو لوگوں نے ان کی ملکیت کا دعویٰ کیا جس پر ہم نے انھیں بتایا کہ بھائی یہ پی ایم اے کی ملکیت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دعوے کے بعد یہ لوگ تحصیل گئے تو انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعی پی ایم اے کی ملکیت ہے۔

’اس تنازع کے باعث بھوت بنگلے کے گرانے میں تین سے چار ہفتے کی تاخیر ہوئی۔‘

ہم خود بھی خوفزدہ ہو گئے

عمارت گرانے سے دو تین روز قبل اس عمارت میں جاری چہل پہل کے دوران جتنے لوگ بھی ہمارے پاس آئے تو ہم نے بظاہر ان کو یہ تاثر دیا کہ ہم کسی بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرتے اور ان کی موجودگی میں سینہ تان کر چلتے رہے لیکن دن کی روشنی میں ہم خود بھی خدشات سے دوچار رہے۔

جب کیمرہ مین خیر محمد تہہ خانے کی شوٹنگ کے لیے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے تو میں خاموشی سے دعائیں پڑھتے ہوئے اُن کے پیچھے جاتا رہا۔

خیر محمد سے تو میں یہ نہیں پوچھ سکا کہ ان کی حالت کیسی ہے لیکن میں نے اپنے پیچھے آتے کارلیسن کے منھ سے ایسے الفاظ ضرور سنے جیسے وہ بھوت کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق بعض کلمات کا ورد کر رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp