طالبان کی ہرات اور لشکر گاہ پر قبضے کی کوششیں، افغان فورسز کے ساتھ سخت لڑائی جاری

خدائے نور ناصر - بی بی سی، اسلام آباد


ہرات

افغانستان کے ایک بڑے شہر لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین شدید لڑائی جاری ہے جس کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد شاید یہ شہر طالبان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہو سکتا ہے۔جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان فضائی فورسز کے طالبان کے خلاف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان عسکریت پسند فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ سنہ 2016 کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا صوبائی دارالخلافہ ہو گا۔

افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوب میں صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ کچھ جگہوں پر قبضے کے بعد کل سے طالبان جنگجوؤں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری امریکی جنگ کے بعد جیسے جیسے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخلا کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے تو ایسے میں طالبان تیزی سے سینکڑوں اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن اُن کے مطابق گذشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی ہے اور اُن کی شہر میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔

طالبان

حکام کے مطابق ہرات شہر کے مغربی حصے شیوان، دستگر، پشتون پل اور ایئرپورٹ کے راستوں کو طالبان سے چھڑوا لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہر کے داخلی راستوں پر لڑائی تاحال جاری ہے۔

ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ شہر کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ عوامی لشکر بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔

’ہم ہرات کے باسیوں کو آپ کے توسط سے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر کی حفاظت کر رہی ہیں۔ ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔‘

ہرات شہر میں طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان بھی میدان جنگ میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ کی مدد سے دشمن کو شہر میں گھسنے نہ دیں۔‘

ہرات شہر میں حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان کے تمام حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

حکام نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ شہر کے بعض شمالی علاقوں اور ضلع انجیل میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

دوسری جانب طالبان ترجمان کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جنگجو آج بھی ہرات شہر میں موجود ہیں اور اُن کے صرف پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔

طالبان کی جانب سے ہرات اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔

اُدھر صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ سے بھی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں آ رہی ہیں اور اس شہر کے اکثر باسی اپنے گھروں میں محصور ہیں۔

لشکرگاہ کے ایک شہری نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔‘

اطلاعات ہیں کہ طالبان نے ایک ٹی وی سٹیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے اور دیہی علاقوں سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں نے شہر کی عمارتوں میں پناہ لے لی ہے۔

افغان

ایک ڈاکٹر نے ہسپتال سے بتایا کہ ’ہر طرف لڑائی جاری ہے۔‘

ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عطااللہ افغان کا کہنا ہے کہ سپیشل فورسز لشکرگاہ پہنچ چکی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید فورسز شہر کی دفاع کے لیے پہنچ جائیں گی۔

ہلمند امریکی اور برطانوی فوجی کارروائیوں کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل تھا اور اگر طالبان اس پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ افغان حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ پیش قدمی کی داستان

سات ملک جنھیں افغانستان میں طالبان کی ‘واپسی’ سے پریشانی لاحق ہے

عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے ایران کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

پیر کو افغان وزارتِ اطلاعات نے اعلان کیا کہ ہلمند صوبے میں 11 ریڈیو اور چار ٹی وی نیٹ ورکس نے مبینہ طور پر طالبان کے ’حملوں اور دھمکیوں‘ کے باعث نشریات روک دی ہیں۔

افغان آرمی کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کل لشکرگاہ شہر میں زمینی اور فضائی حملوں میں کم از کم 30 طالبان جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب لڑائی میں شدت کی وجہ سے بیشتر خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب جانے کی کوششوں میں ہیں۔

دوسری جانب طالبان کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُن کے جنگجو شہر کے حاجی گران چوک پر موجود دکھائی دے رہے ہیں اور طالبان وہاں موجود مکینوں سے اُن کے آنے کے بارے میں تاثرات لے رہے ہیں۔

طالبان کی جانب سے ایسی ہی ایک ویڈیو ہرات شہر کے علاقے پل پشتو کے بارے میں جاری کی گئی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہر کا یہ علاقہ تاحال اُن کے کنٹرول میں ہے۔

لشکرگاہ اور ہرات کے علاوہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار پر بھی قبضے کی کوششیں جاری ہیں۔

اگر طالبان نے قندھار کا کنٹرول حاصل کر لیا تو یہ بہت بڑی علامتی فتح ہو گی اور اُنھیں ملک کے جنوب پر کنٹرول مل جائے گا۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے لڑائی میں اضافے کی وجہ امریکی افواج کے اچانک انخلا کو قرار دیا ہے۔

اُنھوں نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ہماری موجودہ صورتحال کی وجہ اس فیصلے کا اچانک لیا جانا ہے۔‘

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ انخلا کے ’نتائج‘ ہوں گے۔

ویسے تو تقریباً تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل گئے ہیں مگر امریکہ نے افغان فوجیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پیر کو رات گئے تک لشکر گاہ پر فضائی حملے جاری رہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اعلان کیا کہ تشدد کی لہر میں اضافے کی وجہ سے امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں دیگر افغان شہریوں کو اپنے ملک میں پناہ دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp