مفاہمت یا مزاحمت کا بیانیہ؛ کیا مسلم لیگ (ن) میں تقسیم بڑھ رہی ہے؟


مسلم لیگ (ن) نے ایک عرصے سے قصداََ دونوں بیانیے اپنائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت کے بیانیے کے ذریعے حکومت کو للکارا جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو سخت پیغامات دیے جاتے ہیں۔  ووٹرز کو امید اور کارکن کو جوش دلایا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں مفاہمت اور مزاحمت کے بیانیے پر بحث جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق اس معاملے پر جماعت کے اندر تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں۔ جب کہ پارٹی کی نائب صدر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز مسلم لیگ کی مزاحمت کا چہرہ بن کر سامنے آئی تھیں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے عام انتخابات اور سیالکوٹ میں پنجاب اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال ایک بار پھر زیرِ بحث ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہ جماعت کس بیانیے کے ساتھ میدان میں اترے گی؟

پارٹی قائد نواز شریف نے اپنے حالیہ بیانات میں ایک بار پھر مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کامیابی سے تین برس تک مزاحمت یا مفاہمت کی دو رخی پالیسی چلائی۔ البتہ اب وہ وقت قریب ہے کہ اسے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہو گا جس کے بارے میں پارٹی کو جلد فیصلہ کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر انتخابات کی مہم میں مریم نواز نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلق پر سخت بیانات کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں حکومت کو مفاہمت کا پیغام دیتے ہوئے مل کر کام کرنے کی پیشکش کی تھی۔

’نظریاتی جماعت بننے کے لیے مسلم لیگ کو مزاحمتی بیانیے اپنانا ہو گا‘

مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے 2018 کے انتخابی نتائج پر مسلسل اعتراضات کیے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں شہباز شریف نے شکست کی وجہ پارٹی کی ناکام حکمتِ عملی قرار دی تھی۔

سینئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے ایک عرصے سے قصداََ دونوں بیانیے اپنائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت کے بیانیے کے ذریعے حکومت کو للکارا جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو سخت پیغامات دیے جاتے ہیں۔ ووٹرز کو امید اور کارکن کو جوش دلایا جاتا ہے۔ البتہ دوسری جانب جب نواز شریف کو بیرونِ ملک جانا ہوتا ہے یا آرمی چیف کو توسیع دینی ہوتی ہے تو مفاہمت کا بیانیہ سامنے آ جاتا ہے۔ لیکن بہت عرصے تک دو کشیتوں کے سوار بن کر نہیں چلا جا سکتا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) نظریاتی سیاسی جماعت بننا چاہتی ہے تو پھر اسے مزاحمتی بیانیے کو لے کر چلنا ہو گا اور اس کے لیے پارٹی کی نشستوں کی تعداد کے تخمینوں سے بالاتر ہوکر فیصلے کرنے ہوں گے۔

انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ مسلم لیگ (ن) صرف ایک نظریاتی جماعت نہیں بلکہ انتخابی جماعت ہے اور انھیں اپنے بیانیے پر دوبارہ سوچنا پڑے گا اور تبدیلی لانی پڑے گی۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابی نتائج کے بارے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے مزاحمتی بیانیے کی بنیاد پر پارٹی کو مضبوط کیا۔ ووٹرز کو اپنے ساتھ رکھا البتہ انتخابی سیاست میں ’فلوٹنگ ووٹ‘ بھی شامل ہوتا ہے اور وہ اس جماعت کو دیا جاتا ہے جس سے مستقبل قریب میں امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ برسرِ اقتدار آ کر ووٹ دینے والوں کے مسائل حل کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو نظریاتی ووٹ تو ملا۔ البتہ فلوٹنگ ووٹ اسے نہیں ملا۔ کیوں کہ ان کے مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے وہ اقتدار میں جلد آتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ سیالکوٹ کی نشست پر بھی اسی وجہ سے ان کو الیکشن میں شکست ہوئی۔

نواز شریف کی تنقید کا سلسلہ جاری

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کو پانچ لاکھ ووٹ اور چھ نشستیں ملیں۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو چھ لاکھ ووٹ اور 26 نشستیں ملیں۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ تحریکِ انصاف کی ایسی فتح پر کون یقین کرے گا؟

نواز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور سیالکوٹ کے نتائج جس طرح حاصل کیے گئے اُس کا تذکرہ اِن انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی منظرِ عام پر آنا شروع ہو گیا تھا۔ باقی آنے والے دنوں میں اور بے نقاب ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ جدوجہد محض چند نشستوں کی ہار جیت کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لیے ہے۔ اور اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتا کیے بغیر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے نظر آنے کے لیے ہے۔

نواز شریف کے حالیہ بیان کے بارے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ابھی شاید مفاہمتی بیانیے کا وقت نہیں آیا۔ کسی بھی جماعت کی حتمی خواہش اقتدار میں آنا ہی ہوتی ہے اور حالیہ مزاحمتی بیانات بھی اسی کا حصہ ہیں۔ وقت آنے پر اس میں تبدیلی آئے گی اور اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

انتخابی سیاست میں مسلم لیگ کا بیانیہ کیا ہو گا؟

تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلیم بخاری کہتے ہیں کہ نواز شریف کا بیان ہی مسلم لیگ (ن) کا اصل بیانیہ ہے۔ نواز شریف اس بات پر بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنائے بغیر کوئی جماعت حکومت نہیں چلا سکتی۔ بدقسمتی سے ملک میں شراکتِ اقتدار تو ہوئی البتہ انتقال اقتدار نہیں ہوا۔ نواز شریف 10 برس سے یہ بیانیہ لے کر چل رہے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ فوج کے ساتھ مفاہمت کرکے اقتدار حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے سلیم بخاری نے مزید کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل ہونے کا مقصد بھی یہی تھا۔ البتہ اس کو بھی توڑ دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے البتہ گورننس کے مسائل کی وجہ سے اس ایک پیج پر ہونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔

سلیم بخاری کے مطابق نواز شریف کا بیان شہباز شریف کے لیے مفاہمت کا بیانیہ ترک کرنے کے لیے ہے۔

انتخابی سیاست میں مسلم لیگ کا بیانیہ کیا ہو گا؟ اس بارے میں سلیم بخاری کہتے ہیں کہ انتخابی سیاست بھی اسی بیانیہ کی مدد سے جیتی جا سکتی ہے۔ تین برس میں 11 ضمنی الیکشن ہوئے اور نو نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی، خیبر پختونخوا میں بھی اسے کامیابی ملی۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اب تک اگر ایک جگہ پر ہے اور تقسیم نہیں ہوا تو وہ صرف مریم نواز کے مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ شہباز شریف تو نوازشریف کے وطن واپس آنے پر ایئر پورٹ تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔

سلیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف حکومت کو موقع دے رہے ہیں۔ ان کے لیے پنجاب میں اقتدار حاصل کرنا کوئی مشکل نہ تھا لیکن نواز شریف اس حکومت کی حقیقت کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے مزاحمتی بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔

ان کے مطابق آئندہ انتخابات تک مسلم لیگ (ن) اسی بیانیے کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔

شہباز شریف کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟

اس صورتِ حال پر مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اگر پارٹی 2018 کے انتخابات سے قبل اتفاقِ رائے سے حکمتِ عملی تیار کرتی تو نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیرِ اعظم منتخب ہو سکتے تھے۔

نجی ٹی وی چینل ’جیوز نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی کی حکمتِ عملی اس کے صدر شہباز شریف نے بنائی ہے۔ شہباز شریف بتائیں کہ 2018 کے انتخابات سے قبل کیا حکمتِ عملی تیار کی جا سکتی تھی جس سے مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں واپس آنے میں مدد مل سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ صرف آئین اور قانون ہمارا بیانیہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ آئین کے مطابق تمام امور چلائے جائیں۔ اگر اس کو کوئی مزاحمتی بیانیہ سمجھتا ہے تو ضرور سمجھے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی میں کوئی نرم یا سخت بیانیہ نہیں ہے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان آئے اور جیل چلے گئے۔ سیاست میں مفاہمت یا مزاحمت نہیں بلکہ اصول ہوا کرتے ہیں۔

ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) الیکشن میں گئی جو کچھ انتخابات میں ہوا اس کی حقیقت سب کے سامنے آنی چاہیے۔ 2013 سے 2018 تک ملک کی تاریخ کی بہترین حکومت تھی۔

انھوں نے واضح کیا کہ شہباز شریف پارٹی کے قائد نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے اور کھڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments