ماتھے پر چھ ٹانکوں کے ساتھ تین گول: انڈیا کی سیمی فائنل میں شکست کی وجہ بننے والے ہینڈرکس

پردیپ کمار - نامہ نگار بی بی سی


ہینڈرکس

کھیلوں کے لیے ہینڈرکس کا جنون بہت زیادہ ہے

جاپان میں جاری اولمپکس مقابلوں میں انڈیا اور بیلجیئم کے درمیان ہاکی کے سیمی فائنل میں انڈیا کی شروعات ٹھیک رہی تھی اور دونوں ٹیمیں ہاف ٹائم تک برابر تھیں۔ اس کے باوجود انڈیا یہ میچ دو کے مقابلے میں پانچ گول کے بڑے فرق سے ہار گیا۔

انڈین ہاکی ٹیم کی شکست کے لیے بیلجیئم ہاکی ٹیم کے واحد کھلاڑی ذمہ دار ہیں جن کا نام الیگزینڈر ہینڈرکس ہے۔ ہینڈرکس نے اس میچ میں ہیٹ ٹرک کی اور پنالٹی سٹروک کو گول میں تبدیل کیا۔

زخمی ہونے کے باوجود شاندار کارکردگی

ہینڈرکس کس مزاج کے کھلاڑی ہیں اس کا اندازہ تو اتوار کو اسی اولمپکس میں ہو گیا تھا جب وہ کوارٹر فائنل میں سپین کے خلاف کھیلنے اترے تھے۔ بیلجیئم نے یہ میچ ایک کے مقابلے میں تین گول سے جیتا اور اس میں دو گول ہینڈرکس نے کیے۔

لیکن یہ پوری کہانی نہیں ہے، کہانی یہ ہے کہ کوارٹر فائنل میچ سے صرف دو دن پہلے الیگزینڈر ہینڈرکس برطانیہ کے خلاف میچ میں زخمی ہو گئے تھے۔ ایک برطانوی کھلاڑی کی ہاکی ان کے ماتھے پر لگ گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے سر سے بہت خون نکلا تھا۔

ہینڈرکس

چوٹ لگنے کے باوجود بھی کھیلنے کا فیصلہ

ڈاکٹروں کو ان کے ماتھے پر چھ ٹانکے لگانے پڑے تھے تین باہر سے اور تین اندر سے۔ اگلے دن ہفتہ کو انھوں نے اپنی ایم آر آئی کروائی جس سے معلوم ہوا کہ انھیں کوئی اندرونی چوٹ نہیں آئی ہے۔

ٹیم کے ہیڈ کوچ شین میکلیاڈ پریشان تھے لیکن ہینڈرکس نے چھ میں سے پانچ ریڈیالوجسٹ سے کلیئرنس حاصل کر کے کوچ ہی کی نہیں بلکہ اپنی ٹیم کی پریشانی بھی دور کر دی۔

اگر آپ کھیل کے لیے ان کی دیوانگی کا اندازہ اس بات سے بھی نہیں لگا سکتے تو ٹوکیو اولمپکس میں ان کا سکور کارڈ دیکھ لیں۔

گول پر گول

انھوں نے سیمی فائنل تک سات میچوں میں 14 گول کیے ہیں ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول انھی کی ہاکی سے ہوئے ہیں۔

سینیئر سپورٹس جرنلسٹ سوربھ دوگل ہینڈرکس کی اس کارکردگی پر کہتے ہیں ’اگر کوئی کھلاڑی اولمپکس جیسے عالمی معیار کے ٹورنامنٹ میں مسلسل گول کر رہا ہے تو یقین کیجیے کہ وہ اپنے فن میں ماہر یا سب سے آگے ہے۔‘

ویسے اولمپکس میں بہترین کارکردگی کے جذبے کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔

ریزرو کھلاڑی سے سٹار پلیئر تک کا سفر

دراصل پانچ سال پہلے ریو اولمپکس کے دوران بیلجیم کی کارکردگی شاندار تھی۔ ٹیم نے سونے کا تمغہ نہیں جیتا لیکن ارجنٹائن کے ہاتھوں فائنل ہارنے تک بیلجیم کی کارکردگی لاجواب تھی اور اس کامیابی میں الیگزینڈر ہینڈرکس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا کیونکہ وہ ٹیم کے ریزرو کھلاڑی تھے اور انھیں پورے ٹورنامنٹ کے دوران بینچ پر بیٹھنا پڑا۔

انھیں اپنی ٹیم کی کارکردگی پر فخر تھا لیکن انھوں نے اس وقت فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے مزید محنت کریں گے تاکہ ٹیم مینجمنٹ انھیں ریزرو کھلاڑی نہ بنائے۔

ہینڈرکس

2016 کے اولمپکس میں ہینڈرکس ریزرو کھلاڑی تھے

جو لوگ 2018 میں بھوبنیشور میں کھیلی گئی ورلڈ چیمپئن شپ کو یاد رکھیں گے وہ یقینا الیگزینڈر ہینڈرکس کو یاد رکھیں گے۔ ہینڈرکس اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی تھے اور ان کے سات گولوں کی وجہ سے بیلجیئم کی ٹیم عالمی چیمپئن بننے میں کامیاب ہوئی تھی۔

سوربھ دوگل نے مزید کہا ‘دیکھو، ہینڈرکس کی اپنی مہارت ہے اور ساتھ ہی اس کی ٹیم کی اپنی کامیابی، ٹیم ان کے لیے پینلٹی کارنر حاصل کر کے مواقع پیدا کرتی ہے اور ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

ہاکی کی دنیا میں کیسے پہنچے ہینڈرکس

جدید ہاکی کی رفتار اور بڑے ٹورنامنٹ کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ اس موقع کا فائدہ اٹھانا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا لیکن ہینڈرکس یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں کیونکہ انھوں نے صرف پانچ سال کی عمر سے ہاکی کھیلنا شروع کر دیا تھا۔

اتفاق سے جہاں ان کے والدین رہتے تھے وہاں سے صرف دو گلیوں کے فاصلے پر ایک ہاکی کلب تھا جہاں الیگزینڈر پانچ سال کی عمر میں پہنچ گئے تھے اور 14 سال کی عمر تک ان کا نام بیلجیئم کے قومی ہاکی سرکل میں پھیل گیا۔

لیکن انھیں یہ کامیابی راتوں رات نہیں ملی بلکہ انھوں نے قدم قدم پر خود کو ثابت کیا۔ وہ پہلے انڈر 16 ٹیم میں آئے، پھر انڈر 18 اور اس کے بعد انھوں نے انڈر 21 کی ٹیم میں خود کو مزید نکھارا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین ہاکی کی اونچی اڑان، پاکستانی ہاکی اندھیروں میں گم

’ہاکی صرف ہاری نہیں بلکہ برباد ہو گئی ہے‘

جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے لیے دکانیں کھول دی گئی تھیں

اولمپکس کے گولڈ میڈل کی اصل قیمت کیا ہے؟

اس سب کے بعد 2010 میں سنگا پور میں کھیلے جانے والے یوتھ اولمپکس میں انھوں نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ 11 گولوں کے ساتھ بیلجیئم کو کانسی کا تمغہ جیتنے میں مدد دی۔ 2012 میں صرف 18 سال کی عمر میں وہ بیلجیئم کی قومی ٹیم میں شامل ہوئے۔ اگلے سال انھیں بیلجیئم کا ابھرتا ہوا کھلاڑی قرار دیا گیا۔

ہینڈرکس

کافی محنت کے بعد وہ نیشنل ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے

قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں وقت لگا

اس کے باوجود انھیں 2016 کے ریو اولمپکس میں بطور ریزرو کھلاڑی بینچ پر بیٹھنا پڑا۔ سوربھ دوگل بتاتے ہیں کہ’بیلجیئم کی ہاکی نے پچھلے کچھ برسوں میں اس قدر ترقی کی ہے کہ ہینڈرکس جیسی صلاحیتوں کو بھی موقع لینے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔‘

اس وقت الیگزینڈر ہینڈرکس کا شمار دنیا کے خطرناک ڈریگ فلکرز میں ہوتا ہے لیکن مخالف ٹیموں پر ان کا خوف اس طرح نہیں دکھتا جیسے پاکستان کے سہیل عباس، برطانیہ کے کیلم جائلز، نیدرلینڈ کے ٹیکے ٹیکما اور آسٹریلیا کے ٹرائے ایلڈر کا ہوتا تھا۔

ہینڈرکس

ہینڈرکس نے بہت چھوٹی عمر میں ہاکی کھیلنا شروع کر دیا تھا

سوربھ دوگل کہتے ہیں ’چاہے ہینڈرکس کی برانڈنگ اس طرح نہیں ہو پائی ہو لیکن وہ ان سب سے کم نہیں ہیں۔ برانڈنگ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہینڈرکس کا کنورژن ریٹ اوسط ہے، بہت اچھا نہیں۔ لیکن ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنی کلائی کی حرکت کو بھی مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔‘

ویسے آپ کو یہ جان کر اور بھی حیرت ہو گی کہ 27 سالہ ہینڈرکس ایک بہت تعلیم یافتہ ہاکی کھلاڑی ہیں۔ اینٹورپ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے اپلائیڈ اکنامک سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp