غریبوں کا بجٹ!


محترم قارئین آپ بھی عنوان پڑھ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ بجٹ تو امیروں کا ہوتا ہے غریبوں کا بجٹ کہاں سے آ گیا۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ بجٹ تو ہوتا ہی غریبوں کا ہے۔ بجٹ کا مقصد ہی اخراجات میں توازن پیدا کرنے کا ہوتا ہے۔ امیروں کا بجٹ سے بھلا کیا تعلق؟ ان کے لیے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومت کوئی چیز مہنگی کرتی ہے تو ایسے لوگ دیگر ممالک کی مثالیں دینے لگتے ہیں کہ فلاں ملک میں تو اتنی مہنگی چیز ہے۔

یہ سوچے بغیر کہ اس ملک اور ہمارے ملک کے لوگوں کے معاشی ذرائع میں کتنا فرق ہے اور یہ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے خود غربت نہیں دیکھی ہوتی۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے تو یہ لطیفہ ہے کہ امتحان میں ایک بہت امیر لڑکی کے سامنے سوال آیا کہ ایک غریب گھرانے کی غربت کی کہانی بیان کیجئے تو اس نے لکھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جگہ ایک غریب خاندان رہتا تھا، ان کے مالی بھی غریب تھے، خانساماں اور چوکیدار بھی غریب تھے، غرض سب کے سب غریب تھے۔

خیر غریب خود بھی اپنے آپ سے برائی کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہوتے۔ اکثر کسی شادی بیاہ، عید یا کسی اور تقریب کے موقع پر کہا جاتا ہے کہ فلاں مہنگی چیز خریدنا تو برادری میں ناک اونچی کرنے کے لیے ضروری تھی۔ معذرت کے ساتھ حالانکہ اس جھوٹی نمود و نمائش کی شرمناک حرکت کے بعد غریب کی صرف ناک ہی ناک باقی رہ جاتی ہے باقی سب کچھ تو شرمناک قرضے کی وجہ سے غمناک ہوجاتا ہے جس کے بارے میں کسی کو بتاتے ہوئے آنکھ نم ناک ہو جاتی ہے۔ اور سننے والے کا ناک میں دم ہو جاتا ہے۔

پہلے تو کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ اونچی ناک کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اگر اس کا لفظی مطلب لیا جائے کہ کسی چیز کے خریدنے سے کسی کی ناک اونچی ہوجاتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر ناک اونچی ہونے کا تعلق امیر ہونے سے ہوتا تو چینی جاپانی لوگوں کی ناکیں بہت اونچی ہو چکی ہوتیں۔

امیر اور غریب میں اخراجات کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ امیر اگر اپنا رکھ رکھاؤ نہ دکھائے تو سب اسے کنجوس، شوم اور نہ جانے کیا کچھ کہنا پکارنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور امیر کو ایسے اخراجات کرنے سے اس کی امارت پر کوئی فرق بھی نہیں پڑتا لیکن غریب اگر محض دوسروں کو دکھانے کے لیے اخراجات کرے تو اس کے مستقبل میں مزید غربت کے شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس سے اس کی زندگی مزید اذیت ناک ہو جاتی ہے۔

اکثر اخباروں وغیرہ میں ایسی خبریں آتی ہے کہ کوئی غریب اپنے بچے فروخت کرتا ہے یا غربت سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتا ہے تو اس کے پیچھے بھی اپنی غربت کو سمجھ کر، سوچ کر کوئی قدم اٹھانے کی بجائے سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص کے اتنے بچے ہیں تو میرے بھی ضرور ہوں، فلاں نے رشتہ دار کی شادی پر اتنا خرچہ کیا ہے تو میں بھی ضرور کروں۔ ایسا کرنے سے ایسا فرد مزید غربت کا شکار ہو جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی مدد آپ کرتے تھے۔

تو غریب کسے کہا جائے؟ ہماری نظر میں وہ شخص غریب ہے کہ جو صبح سے شام تک مزدوری کرنے کے باوجود بھی آمدن اور اخراجات میں توازن قائم نہ رکھ سکے تو وہ سچا غریب ہے۔ اگر بظاہر کوئی غریب ہے لیکن اس کے اخراجات آمدن سے کم ہیں تو وہ غریب نہیں ہے۔ کیونکہ وہ بچتیں کر کے کچھ ہی عرصے میں غربت کی دلدل سے نکل آئے گا۔

بجٹ کا مطلب ہی اخراجات میں توازن ہے

سب سے پہلے تو کنبے کے افراد اور اخراجات اور آمدن کا حساب کیا جائے۔ اور یہ دیکھا جائے کہ جتنی آمدن ہو، اتنے اخراجات نہ کیے جائیں بلکہ روز مرہ کے اخراجات میں اگر سو روپے آمدن ہے تو پچاس روپے بچائے جائیں، یہ نہیں ہو سکتا تو دس روپے، یا چلو ایک روپیہ ضرور بچایا جائے۔ یہ نہ سوچا جائے کہ ایک روپے سے کیا ہوگا۔ بات یہ ہے کہ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر صرف سوکھی روٹی پر اکتفاء کیا جائے۔ سالن بھی پکائیں لیکن اتنا زیادہ نہ پکائیں کہ سالن کا کوئی حصہ ضیاع کرنا پڑ جائے۔

رحمٰن بابا کا ایک شعر ہے جس کو اگر ہم صحیح لکھ رہے ہیں تو پشتو میں یوں لکھا جاتا ہے۔
بدی نشتہ پہ دنیا کے کہ بدی نہ وی لا تہ نہ

یعنی اس کا مطلب ہے کہ کسی کو اس وقت تک زیادہ نقصان نہیں ہو سکتا کہ جب تک اس میں خود اس کا بھی ہاتھ نہ ہو۔

یا اردو میں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا اسی کے لیے کہا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments