یک نہ شُد دو شُد



یک نہ شد دو شد ایک مشہور کہاوت ہے اور اس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ایک نہ ہوا دو ہوئے۔ یہ عام طور پر اس مصیبت میں بولی جاتی ہے جب پہلی مصیبت ختم نا ہو رہی ہو اور دوسری مصیبت بھی گلے پڑ جائے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں جو کہانی ہے اس کے مطابق ایک شخص منتر پڑھ کر مردوں کو زندہ کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر انہیں دوبارہ مارنے کا جادو جانتا تھا۔ اس نے یہ منتر اپنے شاگرد کو بھی سکھا دیا اور خود کچھ دنوں بعد دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شاگرد نے پہلی بار ایک قبر پر جا کر منتر پڑھا تو مردہ زندہ ہو گیا شاگرد اس سے باتیں کرتا رہا جب مردے کو دوبارہ قبر میں بھیجنے کا وقت ہوا تو شاگرد دوسرا منتر بھول گیا۔ شاگرد گھبرا کر بھاگا تو مردہ بھی پیچھے چل پڑا اب شاگرد کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔

اس دوران شاگرد کو ایک ترکیب سوجھی وہ اپنے استاد کی قبر پر گیا اور پہلا منتر پڑھا تو استاد زندہ ہو گیا شاگرد نے اس سے دوسرا منتر پوچھا تو شو مئی قسمت استاد کو پچھلی کوئی بات یاد نہیں تھی۔ اب تو شاگرد کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اور گھبرا کر دوبارہ بھاگا تو پہلے مردے کے ساتھ ساتھ استاد کا مردہ بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ اپنے پیچھے دو مردے آتے دیکھ کر شاگرد نے کہا کہ یک نہ شد دو شد۔

یہی حال کشمیر کے انتخابات کے بعد کشمیریوں کا ہوا ہے۔ کشمیریوں نے پاکستانیوں کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا اور سب کچھ دیکھتے سمجھتے ہوئے بھی نیا کشمیر بنانے کے چکر میں پہلا منتر پڑھ بیٹھے مطلب یک نہ شد دو شد والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پریشانی کی بات نہی معاملات اب بھی بہتر ہوسکتے ہیں اگر اس شاگرد کو تلاش کر لیا جائے جس نے یہاں اور وہاں وادی میں پہلا منتر پڑھا ہے۔ بس دعا یہ کرنی چاہیے کہ اس شاگرد کو دوسرا منتر یاد ہونا چاہیے اگر دوسرا منتر یاد نہیں ہے تو پھر اس میں اس شاگرد کی کوئی خطا نہیں بس ہمارا نصیب ہی خراب ہے۔ تا ہم مایوسی کفر ہے اور شاگرد کی تلاش جاری رکھنی چاہیے کیا پتہ کسی دن اس کو دوسرا منتر بھی یاد آ ہی جائے اور ہماری مشکلات کم ہوجائیں

تاہم باوجود کوشش کے ہماری مشکلات کم ہی نہیں ہو رہیں۔ ہم سے اچھی تو برصغیر کی معروف مغنیہ شمشاد بیگم تھیں جو گنگناتی رہتی تھیں کہ میرے پیا گئے رنگوں وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون، تمہاری یاد ستاتی ہے، جیا میں آگ لگاتی ہے۔ خوش قسمت تھی کہ رنگون سے پیا فون کیا کرتے تھے حالانکہ اس وقت فون کی سہولت ہی خال خال میسر ہوتی اور مہنگی بھی پڑتی تھی۔ ایک ہم ہیں کہ قسمت میں شمشاد بیگم سے مقابلہ نہیں کرسکے اور ہمیں ایک فون کال تک نہیں کی ہمارے پیا نے حالانکہ ہمارے سلامتی کے خیرخواہ نے شکوہ بھی کیا ہر بار کہتے ہو کہ فون کریں گے مگر ستم گر ایسے ہو کہ ایک فون کال بھی نہیں کی۔ واقعی پیاد دیوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتا ہے لہذا عشق میں عزت سادات بھلا کر، میر صاحب کی طرح گنہگار ہوئے مگر پھر بھی مراد بر نہیں آئی۔

حالات کی وہ ستم ظریفی ہے کہ مرادیں تو کسی کی پوری نہیں ہو پا رہیں۔ نا تو عوام کی اور نا ہی حکمران طبقات کی۔ ایک قسمت کے دھنی تھے جہانگیر ترین جن پر دھن دن رات برس رہا تھا مگر لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی ان سے بھی ناراض ہو گئی ہے اور بے پناہ پیسہ اور دولت ہونے کے باوجود یہ دیوی مہربان نہیں ہو پا رہی۔ ان کے قریبی ساتھی کچھ دن جیل رہنے کے بعد جب آزاد ہوئے تو گویا ترین کی دسترس سے بھی آزاد ہو گئے اور پہلا بیان ہی اپنے انقلابی قائد کے خلاف داغ دیا۔ مطلب سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گیا اگر یہی حال رہا تو مستقبل قریب کچھ زیادہ اچھا نظر نہیں آ رہا اور ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں کپتان کے قریب ترین یہ گانا گنگناتے نظر آئیں کہ دوست دوست نا رہا، پیار پیار نا رہا، زندگی ہمیں تیرا، اعتبار نا رہا اعتبار نا رہا۔

سیاسی پت جھڑ میں اعتبار کیسے قائم ہوں محبتیں کیسے پروان چڑھیں۔ ذرا سا اندھیرا ہو جائے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور اس وقت تو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر پوری اماوس کی رات چھائی ہے۔ میاں کے جانثار کوئٹہ میں بلاول کے جیالے بننے جا رہے ہیں۔ مطلب بلوچستان سے میاں صاحب کی سیاست کا فی الوقت خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ باقی رہ جائے گا پنجاب تو اس سال کے آخر تک بہت سے دوستوں کا ہاتھ چھوڑ کر یہ کہا جائے گا کہ جا سمرن جا جی لے اپنی زندگی۔ اور ہر سمرن اس طرح ہاتھ چھڑا کر بھاگے گی کہ جیسے یہ اس سٹاپ کی آخری ٹرین ہو اور یہ چھوٹ نا جائے۔ کیونکہ مروجہ عملی سیاست میں سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ اور ایک ہی سٹاپ پر رکی ہوئی ٹرین میں کوئی کب تک بیٹھے اور کیوں بیٹھے۔

بالکل اسی طرح سست ہوتے بلکہ کم وبیش رکے ہوئے سی پیک کی ٹرین کا ڈرائیور یک لخت تبدیل کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ہمالیہ سے اس پار رہنے والے دوست ناراض تھے۔ وجہ جو بھی ہو بہرحال اچھا تاثر قائم نہیں ہوا۔ ویسے تاثر کی آج کون پروا کرتا ہے برا تاثر تو ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان کی ٹاک شو میں گفتگو سے بھی آیا ہے۔ کروڑوں سرائیکیوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ مگر کون پوچھ سکتا ہے بھلے ریٹائرڈ ہیں مگر ہیں تو جنرل۔ اسی طرح پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سترہ سال سے سربراہ عارف حسن سے بھی ان کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنا بھی بے ادبی میں شمار ہوگا۔ اس لیے عصر حاضر کے حاکم کا حکم ہے کہ ہر کوئی حد ادب میں رہے بے ادبی اور گستاخی ناقابل معافی ہوگی۔ لہذا کیوں کہنا بھی جرم ہے اور کیا کہنا بھی جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments