اردو زبانمیں مغربی ادب پاروں کے تراجم کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن انگریزی کے سوا دیگر زبانوں کے تراجم زیادہ تر انگریزیزبان میں کئے گئے ترجموں کی مدد سے کئے جاتے رہے ہیں۔ تاہممتعدد مغربی ممالک میں پاکستانی تارکین کے آباد ہونے کی وجہ سے اب یہ رجحان تبدیل ہونے کو ہے۔ ناروے میں مقیم شگفتہ شاہ نے نوبل امن انعام یافتہادیب کنوت ہامسن کے مقبول رومانوی ناول کا اردو میں ترجمہکرکے اس رجحان کو آگے بڑھایاہے۔

اس نئے رجحانکی بدولت اردو قارئین اب نہ صرف اصل زبان کے تراجم سے لطف اندوز ہوسکیں گے بلکہ ایسے مترجم چونکہاسی زبان کیمعاشرت و ثقافت میں رہتے ہوئے اس کا بالواسطہ طور سے حصہ بن چکے ہیں لہذا یہ تراجم زیادہ معتبر، لطف اندوز اور بامعنی بھی تصور کئے جائیں گے۔ایسے مترجمینجب کسی ادب پارے کا ترجمہ کرتے ہیںتو وہ صرف کسی زبان سےواقفیتہی کی بدولتنہیں ہوتا بلکہپورے ماحول اور پس منظر سے شناسائی کیوجہ سےان تراجم میں اصل ادب پارے کا رنگ اور چاشنی محسوس کی جاسکتی ہے۔ناروےکے عالمی شہرت یافتہاور جدید فکشن کے بانی سمجھے جانے والے ادیب کنوت ہامسن کے ناول وکٹوریہ کایہ ترجمہ ان معنوں میں یکتا اور ایسیگوناں گوں خوبیوںکا حامل ہے جوانگریزی کے توسط سے کئے گئے تراجم میںنہیں مل سکتیں۔شگفتہ شاہ نے خوش اسلوبی سےیہکام کرکے ایک اہم ادبی خدمت انجام دی ہے۔یہ ایکطرف نارویجئین زبان و ادب کی خدمت ہے کہ اسمیں تخلیق کئے گئےناول کا ترجمہ اردو جیسی اہم زبان میں سامنے آیا ہے تو دوسری طرف اردو ادب بھی اسقابل قدر ترجمہ سےمالامال ہوگا۔ اوراردو قاری اور ادیب گزشتہ صدی کے اہم ادبی رجحانات کے نمائیندہ اس شہپارہ کا مطالعہ کرسکیں گے۔

کسی ادب پارے کا ترجمہ دراصل تخلیق ہی کے زمرےمیں آتا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ مترجم اس پورے ماحول اور صورت حال کو خود میںسمو کر اوراپنےآپ کو اس ماحول و معاشرت کا حصہ بنا کر ہی ترجمہ کا حق ادا کرسکتا ہے۔ تاہممغربی یا دیگر زبانوں کےمترجمین کے بارے میں کسی تعصب کا اظہار کئے بغیر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہجو مترجم کسی ادب پارے کو اسکی تخلیقی زبان میںپڑھ سکتا ہو اور اس معاشرے میں قیام کی بدولت کسی حد تکاسمعاشرت اور انسانیرویوں کے پس منظرسے بھی آگاہ ہو،وہ ترجمہ کا حق زیادہ احسن طریقے سے ادا کرسکتا ہے۔ شگفتہ شاہنہ صرف نارویجئن زبانپر دسترس رکھتی ہیں بلکہ اردو زبان و ادب سے ان کا دیرینہ رشتہ و تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہیہ ترجمہ کرتے ہوئے ان کے پاس وہ تمام صلاحتیں موجود تھیں جو ایک کامیاب اور خوبصورت ترجمہ کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے ایککلاسیکل نارویجئنشاہکار کا ترجمہ اردو قارئین کے لئے پیش کرکےاس صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

کنوت ہامسن اگست 1849 میں پیدا ہوئے اور فروری 1952 میں ان کا انتقال ہؤا۔ اس طرح ان کا ادبی کام سات دہائیوں پر پھیلا ہؤا ہے۔ انہوں نے بنیادی طور پر فکشن ہی لکھا ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بیس ناولوں کے علاوہ شاعری کا ایک مجموعہ،افسانے اور ڈرامے بھی لکھے۔ انہوں نے چند مضامین بھی لکھے ہیں۔ گو کہ ان کی شاعری کو متعدد کمپوزرز نے اپنی موسیقی میں استعمال کیا ہے لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ناول نگاری ہی تھی۔ ان کے ناولوں میں ’بھوک‘ کو عالمی طور پر شہرت حاصل ہے جبکہ دیگر متعدد ناول بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے ہیں۔ اور ان پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔کنوت ہامسن نے دوسری عالمی جنگ کے دوران انگریزوں سے اپنی ناپسندیدگی کی بنا پر جرمن نازی حکومت کی حمایت کی تھی حتی کہ ناروے پر نازیوں کے قبضہ کو بھی جائزقرار دیا ۔ جنگکے بعد ان پرملک دشمنی کا الزام عائد کیا گیا تھاتاہم ان کی ذہنی حالت اور بڑھاپے کی وجہ سے انکے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

کنوت ہامسن کو بیسویں صدی کا سب سے اہم تخلیق کار مانا جاتا ہے جس نے اپنے پورے عہد کو متاثر کیا۔ تھامس مان، فرانز کافکا، میکسم گورکی اور ارنسٹ ہمینگوے جیسے ادیبوں نے ہامسن کے طرز تحریر اور انسانی نفسی گتھیوں کو سمجھنے کی کاوش سے سبق سیکھا اور اس طرز کو لے کر آگے بڑھے۔ انہیں بیسویں صدی کی ماڈرن فکشن نگاری کا امام کہاجاتاہے۔ نوجوانی میں انہوں نے حقیقت پسندی اور فطرت نگاری کو اختیار کیا لیکن ان کیاصل وجہشہرت انسان کی نفسیات کو سمجھنے اور اس کی سوچ، عملاور رویہ کو ضبط تحریر میں لانے سےہے۔ 1898 میں لکھا گیا کنوت ہامسن کا ناول وکٹوریہ اسی طرز تحریر کا شاہکار مانا جاتا ہے۔

وکٹوریہ ایک عام سی رومانوی کہانی ہے جس میں ایک چکی والے کا بیٹا یوہانس ایک امیر زادی وکٹوریہ کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ کہانی لکھتے ہوئے طبقاتی تقسیم اور سماجی ناہمواری کا بیان بالواسطہ طور سے ہوتا ہے۔ ہامسن نے کہانی کے کرداروں کی سوچ، احساسات، الجھنوں، عمل و رد عمل کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح یہ ناول محبت کی عام کہانی سے زیادہ دو انسانوں کی تحلیل نفسی اور اس حوالے سے پورے سماج اور اس کے رویوں کو سمجھنے کا حوالہ بن گیاہے۔

شگفتہ شاہ نے براہ راست اصل نارویجئن زبان میں لکھے ہوئے مسودہ سےاستفادہ کرتے ہوئےوکٹوریہ کواردو قالب میں ڈھالا ہے۔ترجمہ کی زبان سادہ ، عام فہم اور سلیس ہے جس سے ابلاغ میں الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ کراچی کے پبلشر سٹی بکپوائینٹنے اسے خوبصورت طریقے سےشائع کیا ہے۔ایکنامور نارویجئین ناول نگار کے ایک اہم ناول کاترجمہاردو ادب کے شائقین کے لئے دلچسپی کا موجب ہوگا۔ گزشتہ صدی کے دوران مغربی ناول نگاری میں نئے رجحانات روشناس کروانے والے ادیب کیتخلیق سے اردو قارئینکومتعارف کروانے پر شگفتہ شاہ مبارک باداور تحسین کی مستحق ہیں۔