چترال میں چند دن


چترال کل رات ساڑھے دس بجے مزے لے لے کر پہنچے۔ سرزمین ہی ایسی ہے کہ جگہ جگہ آپ کا دامن کھینچ کر پوچھتی ہے ؛ ’کاہے کو اتنی جلدی صاحب؟‘ ۔ آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو بس دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہر گوشے میں بکھرا پڑا بے پناہ حسن آپ کو مبہوت کر کے رکھ دیتا ہے اور آپ کے اندر یہ احساس جاگ اٹھتا ہے کہ پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی، اب عجلت کے چکر میں مزید تاخیر نہیں کرنی، ان منظروں کو اپنے اندر جذب کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے ساتھ اپنا مختصر کنبہ بھی تھا، اسید کی ماں کو اب سمجھ آ گئی ہے کہ دیر سویر کا مجھ پر زیادہ اثر نہیں ہوتا اور یہ کہ سرشت انسان پر میرا اعتماد غیر متزلزل ہے، اس لئے اب وہ بھی قدرے بے خوف ہو گئی ہے۔

لواری ٹاپ سے ذرا آگے پناہ کوٹ میں مغرب کی نماز پڑھی، چائے پی کر تازہ دم ہوئے، مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور چترال کے لئے ایک مرتبہ پھر روانہ ہوئے۔ لواری ٹنل سے اتر کر معاملہ خراب ہو گیا۔ بارشوں نے سڑک نامی چیز کو پتھروں سے بھر دیا تھا۔ پہلے دفعہ لگا کہ جیسے چترال کی سرزمین ہمارے آنے سے خوش نہیں، مزاحم ہو گئی ہے اور ہمیں واپس دھکیلنے کی جتن کر رہی ہے۔ ہم ٹھہرے مملکت خداداد کے باسی، ہم تو اپنے جغرافیے کے چکر میں علاقوں کی تاریخ بگاڑ دیتے ہیں، صدیوں سے نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے احساسات کو تہہ تیغ کر کے۔ پھر لگا کہ ہم انسان اگر پہاڑوں کو بے بس کرنے سے باز نہیں آتے تو پہاڑ اپنی بے بسی کا اظہار اپنے سینے سے جڑے کچھ پتھر پھینک کر ہی کریں گے۔

خیر ہم سست رفتاری سے آگے بڑھتے رہے، آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں بہت وقت برباد ہوا۔ چترال پہنچے اور سیدھا اپنے دوست صہیب کے گھر، جہاں پر تعیش کھانا ہمارا منتظر تھا۔ صہیب سے شناسائی میرے عزیز دوست اعزاز صاحب کے توسط سے ہوئی اور وہ جو کہتے ہیں نا کہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز بہ باز؛ صہیب بھی اعزاز کی طرح شیریں و دلپذیر و دل آراء شخصیت کے مالک ہیں۔ پتہ نہیں اتنے میٹھے لوگ شکار کیسے کر لیتے ہیں، مجھے تو بھیا پرندوں اور جانوروں کے مارنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔

ہاشم نے ایسا پر تکلف کھانا کھلایا تھا کہ رات کے کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ویسے بھی سفر میں اور منزل پر پہنچ کر کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس دوران میرا گزارا مشروبات اور پھلوں سے ہوتا ہے۔ مروت میں کھانا کھانے کی اداکاری تو کرنی پڑتی ہے لیکن فکر یہ دامن گیر تھی کہ ایک نوالہ بھی حلق سے اترنے کا یارا نہ تھا۔ پہلا لقمہ نگلنے کے واسطے منہ میں رکھا تو جیسے ذائقہ زبان کے راستے دل و دماغ میں اتر گیا۔ یکلخت یاد آیا کہ چترال کے لوگ تو کھانا پکانے کے ماہر ہیں۔ پھر کیا تھا، ایک کے بعد دوسرا پکوان کھاتا رہا اور خوب جی بھر کر کھایا۔ پیٹ بھر گیا تھا اور یقین کرے کہ اس کا افسوس تھا۔ دماغ کو اشارہ مل چکا تھا کہ اندر مزید گنجائش نہیں لہذا ہاتھ کھینچنا ہی پڑا۔

رات کھانا کھا کر ماؤنٹین ویو نامی ہوٹل میں پہنچے تو دروازہ بند اور سارا سٹاف سو رہا تھا۔ ڈر ڈر کے آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹایا لیکن جواب ندارد۔ فون کیے لیکن سب جیسے گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے تھے۔ اسید نے کہا، یہ ایسے نہیں مانیں گے اور دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا لیکن کوئی جواب نہ مل سکا۔ خوش قسمتی سے قریبی گھر کا ایک بندہ کہیں سے گھر آ رہا تھا۔ گاڑی پارک کر کے ہمارے پاس آیا اور پھر دروازوں پر اتنے زور سے مکے برسائے کہ اندر موجود سارا سٹاف جاگ گیا۔ ہمیں روشن پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہا، دونوں طرف سے معذرت کے رسمی کلمات عطا ہوئے اور خیر سے اپنے کمرے پہنچ گئے۔

چترال پہنچ کر احساس ہوا کہ میری گاڑی اگر چہ چترال کی سیر کے لئے مناسب ہے لیکن اس کو تھوڑا اوپر ہونا چاہیے تھا کہ پتھروں سے زیادہ نہ ٹھکرائے۔ صہیب نے کہا اس میں سپیسرز لگانے پڑیں گے، میں نے کہا یا بسم اللہ۔ ابھی ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں اور صہیب صاحب میکینک کے پاس گاڑی میں سپیسرز لگا رہے ہیں۔ یہ کام پشاور میں کرنا چاہیے تھا۔ گاڑی اگر وقت پر تیار ہوئی تو آج گرم چشمہ کی طرف نکلنے کا ارادہ ہے۔ آپ ساتھ رہیں گے تو مزہ آئے گا۔

برادرم فرید کا شکریہ جو بے پناہ مصروفیت کے باوجود گاہے بہ گاہے فون کر رہے ہیں اور تیمرگرہ سے ہمارے لئے چترال میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments