افغانستان میں نیا سیٹ اپ کیسا ہوگا؟


حالیہ دنوں میں، افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی نے افغانستان بشمول پاکستان میں بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ بارڈر کے اس پار تو بہت سے لوگ طالبان کی پیش قدمی پر بھنگڑے بھی ڈال رہے ہیں۔ لیکن، خیر اس موضوع پر بات ہوگی پھر کبھی، فی الحال موضوع کی پٹڑی سے اترنا گوارا نہیں۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے متعلق خبریں میڈیا پر نمایاں ہیں، غیر جانبدار ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ طالبان کی پیش قدمی سے متعلق میڈیا پر مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے۔ بہرحال، ہم حالات اور خبر رسائی کے مطابق گوش گزار کریں گے۔

کابل اور طالبان کے مابین بغیر کسی امن معاہدے کے انخلا کے نتیجے میں ضروری نہیں کہ افغانستان میں طالبان قابض ہوجائیں۔ میرے خیال میں ممکنہ طور پر افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے جو ایک طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

امریکہ کے بگرام ائیربیس چھوڑنے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے مابین کشیدگی جلد افغان صوبائی دارالحکومت کا رخ کر سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طالبان کے قبضے کا خواب جلد ہی پورا ہو جائے، یقیناً طالبان کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالیہ دنوں میں کچھ رپورٹس میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ اگر طالبان کابل تک پہنچ جاتے ہیں اور حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیا امریکہ کسی طرح سے مداخلت کرے گا؟

امریکہ، پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مختلف نقاط پر بحث جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن، اس سوال کا فی الوقت کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں۔ میرے خیال سے اس سے متعلق ابھی تک کچھ طے نہیں ہوسکا ہے۔

دوحہ میں امریکہ۔ طالبان معاہدے نے طالبان کو بہت زیادہ قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ افغان حکومت کو اس معاہدے میں فریق بھی نہیں بنایا گیا۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ ان چیزوں پر اتفاق کیا جو اس کے بعد افغان حکومت کو کرنا پڑیں۔ جیسے قیدیوں کی رہائی۔ ان اقدام نے طالبان کو کافی تقویت بخشی، اور طالبان پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہو گئے۔

ان اقدام کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا ایک لحاظ سے امریکہ افغانستان کو غیریقینی صورتحال سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غیرمشروط انخلا بنیادی طور پر امن عمل کو بے کار بنا دیتا ہے۔

میرے خیال میں بائیڈن انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ اب افغانستان کے حوالے سے علاقائی ممالک مثلاً؛ پاکستان، روس، چین، انڈیا کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن، امریکہ خود اگر دوری اختیار کرے گا تو وہ اس کی ساکھ کے لئے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ تو میرے خیال میں یہ بات ذہن نشین کر دینی چاہیے کہ امریکی فوج تو افغانستان سے جا رہی ہے لیکن امریکہ نہیں جا رہا ۔

امریکہ افغانستان میں مرکزی طور پر کام کرنے والی حکومت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بائیڈن نے اس حوالے سے کافی صاف الفاظ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ بہت مشکل ہے۔

تو میرے خیال سے ممکنہ نتائج میں یہ بھی امکان ہو سکتا ہے کہ ایک غیر مرکزی فریم ورک ابھرے، جس میں شہری علاقوں میں الگ اور دیہی علاقوں میں الگ سیٹ اپ ہو سکتا ہے، جس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کے بڑے حصے پر طالبان راج ہو۔

لیکن، یہ سب اس بات پر منحصر ہوگا کہ عسکری طور پر معاملات کیسے چلتے ہیں۔

مجھے اندازہ نہیں کہ افغانستان کے لوگ مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ وہاں رہنا بھی بڑی بہادری کا کام ہے، جو کام وہاں پر لوگ کر رہے تھے وہ جاری رکھنا بھی بڑا کٹھن ہے۔ وہاں پر کام کرتے صحافیوں پر بھی گزشتہ چند مہینوں میں بہت حملے ہوئے۔ اسکول جانے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ واپس گھر نہیں لوٹیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت افغانستان میں صرف خوف کا راج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments