نیرج چوپڑا کا طلائی تمغہ اور ارشد ندیم کی پانچویں پوزیشن: انڈیا میں صارفین خوشی سے نہال، پاکستان میں ارشد ندیم کے چرچے


خواتین ٹی وی

ٹوکیو اولمپکس 2020 میں جیولن تھرو کے فائنل میں ویسے تو 12 ایتھلیٹس حصہ لے رہے تھے لیکن کم از کم جنوبی ایشیا کے دو ممالک کی تمام تر توجہ پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا پر تھی۔

دونوں ہی ایتھلیٹس اس ایونٹ میں تمغہ جیتنے کے امیدوار تھے اور دونوں کے کندھوں پر اپنے ملکوں کی مایوس کن اولمپک تاریخ کا بوجھ بھی موجود تھا۔

ارشد ندیم نے جب چار اگست کو جیولن تھرو ایونٹ کے فائنل مرحلے کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستان میں اکثر افراد تب سے ہی خاصے پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹ میں کوئی ایتھلیٹ حتمی مرحلے تک پہنچا ہو۔

مقابلہ شروع ہوا تو پاکستان میں جہاں اکثر افراد ٹی وی سکرینز کے سامنے جمع ہو گئے تھے ویسے ہی بی سی کے نیوزروم میں بھی اس حوالے سے خاصا تجسس تھا۔

جیولن تھرو ہوتا کیا ہے، اس میں جیتنے کے کیا کیا کرنا پڑتا ہے اور سرخ جھنڈا دکھانے کا کیا مطلب ہے اس طرح کے متعدد سوالات ایتھلیٹکس کی دنیا سے ناآشنا ہمارے ساتھیوں کے ذہنوں میں بھی دوڑ رہے تھے اور ارشد ندیم کے سکرین پر آتے ہی خامشی طاری ہو جاتی۔

سوشل میڈیا پر اکثر افراد یہ بتا رہے ہیں کہ انھیں آج معلوم ہوا کہ جیولن تھر آخر ہوتا کیا ہے، اور ایسا کوئی کھیل بھی اولمپکس کا حصہ ہے۔

تاہم کھیل سے ناآشنائی کے باوجود سب ہی افراد ارشد کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے اور کسی معجزے کا انتظار کرتے رہے۔

سنیچر کو ہونے والے مقابلے میں ارشد ندیم وہ کارکردگی تو نہ دکھا سکے جن کی ان سے امید کی جا رہی تھی اور وہ اس برس جیولن پھینکنے کی اپنی بہترین کارکردگی 86 اعشاریہ 38 میٹر کو دوہرا نہ سکے اور فائنل مقابلے میں ان کی بہترین کوشش 84 اعشاریہ 62 میٹر رہی اور وہ پانچویں نمبر پر رہے۔

تاہم انڈیا سے تعلق رکھنے والے نیرج چوپڑا نے ایونٹ میں طلائی تمغہ حاصل کر کے تاریخ رقم کر دی۔ وہ ٹریک اینڈ فیلڈ مقابلوں میں پہلے اور انفرادی طور پر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے دوسرے انڈین بن گئے ہیں۔

انھوں نے ایونٹ میں 87 اعشاریہ پانچ آٹھ میٹر دور جیولن پھینک کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ نیرج اور ارشد کے حوالے سے ان کے مقابلے سے پہلے بھی خاصی بحث چل رہی تھی اور دونوں اطراف سے اپنے ایتھلیٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

اس وقت جہاں پاکستان میں اکثر افراد خاصے افسردہ ہیں اور اسے کرکٹ کا ورلڈکپ ہارنے سے بھی بڑا صدمہ قرار دے رہے ہیں وہیں انڈیا میں نیرج کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم کو نہ ہونے کے برابر وسائل کے باوجود پانچویں پوزیشن حاصل کرنے پر سراہا جا رہا اور ان کے مقابلے میں نیرج کو دیے گئے وسائل کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے۔ تاہم پہلے یہ جانتے ہیں کہ تاریخ رقم کرنے والے انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا کون ہیں؟

نیرج

نیرج چوپڑا: انڈین فوج کے صوبیدار سے اولمپک گولڈ میڈلسٹ تک

سنہ 1997 میں ایک کسان کے گھر پیدا ہونے والے نیرج کا تعلق ہریانہ کے ضلع پانی پت سے ہے۔ انجو بوبی جورج کے بعد وہ انڈیا کے دوسرے ایسے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے ورلڈ کلاس ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل جیتا۔

انھوں نے یہ کامیابی سنہ 2016 کے دوران پولینڈ میں انڈر 20 ورلڈ چیمپیئن شپ میں حاصل کی تھی۔ اس بڑی کامیابی کے بعد انھیں انڈین فوج میں صوبیدار کی نوکری مل گئی تھی۔

ٹوکیو اولمپکس سے قبل انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے نیرج سمیت دیگر ایتھلیٹس کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے تمام کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ٹوکیو اولمپکس: جیولن تھرو میں نیرج چوپڑا نے طلائی تمغہ اور ارشد ندیم نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے

ارشد ندیم: میاں چنوں کے گاؤں کا کرکٹر ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی آخری امید کیسے بنا؟

انڈین فوج کے ’صوبیدار‘ نیرج چوپڑا جو ٹوکیو اولمپکس میں ارشد ندیم کے مدِمقابل ہوں گے

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستانی کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کی کارکردگی کیسی رہی؟

نیرج سے بات کرتے ہوئے مودی نے پوچھا تھا کہ ‘مجھے بتایا گیا کہ آپ تو انڈین فوج میں بھی ہیں۔ فوج میں ایسی کون سی ٹریننگ نے آپ کی مدد کی ہے؟’

نیرج نے جواب دیا کہ انھیں فوج میں شمولیت کا بہت شوق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘انڈین فوج اور حکومت نے مجھے تمام سہولیات دی ہیں۔’

نیرج 2016 میں ریو اولمپکس میں کوالیفائی نہیں کر پائے تھے۔ ان کی تھرو 82.37 میٹر تھی جبکہ کوالیفائی کرنے کے لیے انھیں 83 میٹر کی تھرو کرنا تھی۔

نیرج نے سنہ 2016 میں ساؤتھ ایشین گیمز میں 82.23 میٹر کی تھرو کے ساتھ سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

سنہ 2017 میں انھوں نے 85.23 میٹر کی تھرو کے ساتھ ایشین ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں سونے کا میڈل جیتا تھا۔ رواں سال جون میں نیرج نے پرتگال کے شہر لزبن میں ہونے والے مقابلوں میں بھی سونے کا میڈل جیتا تھا۔

انڈیا میں رواں سال مارچ کے دوران انڈین گراں پری مقابلوں میں انھوں نے پٹیالہ میں 88.07 میٹر کی تھرو کی تھی۔

ارشد ندیم

’ہم ارشد کے لیے کچھ نہیں کر سکے، لیکن اب ہم ان کے لیے جشن منا سکتے ہیں‘

جہاں سوشل میڈیا پر پاکستان میں ارشد ندیم کو سراہا جا رہا ہے وہیں نیرج چوپڑا کی تعریف بھی ہو رہی ہے۔ نیرج چوپڑا نے جس تھرو کی مدد سے تمغہ جیتا ہے، وہ پھینکنے کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور جشن منانا شروع ہو گئِے۔ ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ اس سے نیرج کا اپنی صلاحیتیوں پر یقین نظر آتا ہے۔

انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کیا کہ ’میری ابھی نیرج چوپڑا سے بات ہوئی ہے اور میں نے انھیں طلائی تمغہ جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔‘

’وہ بہترین کھیلوں کے ٹیلنٹ اور سپورٹس مین سپرٹ کی نمائندگی کرتے ہیں اور ٹوکیو اولمپکس کے دوران ان کی محنت، اور لگن قابلِ ستائش تھی۔‘

امت کمار نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا آج شام ایک خوش و خرم خاندان جیسا لگ رہا ہے، اجنبی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، گلے مل رہے ہیں۔ امید ہے یہ ایسے ہی قائم رہے۔

ادھر پاکستان کے شمائل نے لکھا کہ ’آپ پر ہمیں فخر ہے، آپ نے ہمیں ایسا کھیل دیکھنے پر مجبور کیا جسے ہم نظر انداز کیا کرتے تھے۔‘ جبکہ ملیحہ لودھی نے لکھا کہ ارشد ندیم آخر میں کامیاب تو نہ ہو سکے، لیکن انھوں نے ہمارے دل جیت لیے۔‘

ادھر عمر سیف سمیت دیگر افراد پاکستان میں ایتلھیٹس پر لگائے گئے وسائل پر تنقید کرتے دکھائی دیے۔ عمر سیف نے کہا کہ ’ہم ارشد کے لیے کچھ کر تو نہیں سکے، لیکن ہم ان کے لیے جشن ضرور منا سکتے ہیں۔‘

نصرت بتول نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اتنا دکھ ہو رہا ہے، رلا دیا یار ارشد نے آج، پر ارشد کا شکریہ کہ اس نے ہمیں اتنا خوش کیا کہ ہم نے پہلی بار اولمپکس کے فائنل میں اپنے ملک کو دیکھا۔‘

خرم نامی ایک صارف نے لکھا کہ آج ارشد ندیم کی وجہ سے پوری قوم کو اولمپکس کے جیولن تھرو نامی کھیل کے بارے میں معلوم ہوا، یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘

حسن چیمہ نے ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کو دیے گئے وسائل کے بارے میں لکھتے ہوئے دو تصاویر شیئر کیں، جن میں سے ایک میں نیرج بتا رہے ہیں کہ انھیں یورپ جا کر ٹریننگ کا موقع ملا اور دوسری جانب ارشد کے والد کے مطابق انھیں پاکستان میں مختلف کیمپس میں بھی اپنی جیب سے خرچ کر کے جانا پڑا۔

فیضان لاکھانی نے لکھا کہ ان ایتھلیٹس کو یاد رکھیں یہ ہمارے ہیروز ہیں، ان میں ارشد ندیم، طلحہ طالب اور گلفام جوزف شامل ہیں جو میڈل حاصل کرنے کے بہت قریب تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp