بنت حوا کا نوحہ


خیر و شر کی چپقلش ازل سے جاری ہے اور جاری رہے گی، انسان زمین پرا اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اور انسانوں میں بھی یہ جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے، انسان االلہ تعالیٰ کی ایک ایسی شاہکار تخلیق ہے جس میں االلہ نے خیر و شر کی یکساں خصوصیات رکھی ہیں اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے اگر وہ خیر کی راہ پر چلتے ہوئے عروج پائے تو سدرۃالمنتہیٰ سے بھی آگے بڑھ کر مسجود ملائک بن جاتا ہے اور شر کی راہ پر چلتے ہوئے ذلت کی پستیوں میں گر تا ہے تو حیوانیت اور بربریت کی ساری حدیں پار کر لیتا ہے جس کو اسفلاسافلین کہا گیا ہے، وحشت، بربریت اور حیوانیت زمان و مکاں اور مذہب و ملت سے ماورا ہے، اگرچہ چنگیزیت ظلم کا استعارہ ہے تو مسلمان بھی اس سے مبرا نہیں ہیں، تاریخ نے جہاں مسلمانوں کے ہاتھوں نواسہ رسولﷺ کو ذبح ہوتے اور کعبے پر سنگ باری ہوتے دیکھا ہے وہیں پر مدینۃ النبی جیسے مقدس اور پاکیزہ شہر کی پاکباز اور عفت مآب خواتین کی عصمتوں کو بھی تار تار ہوتے دیکھا ہے۔

فاتحین نے ہمیشہ مفتوحین کی غیرت و حمیت کو کچلنے اور ذلیل و رسوا کرنے کے خواتین کی عصمت دری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن نہ جانے وطن عزیز میں وحشت اور بربریت کا یہ کھیل کس کو نیچا دکھانے کے لئے رچایا جا رہا ہے؟ کیا بنت حوا جرم ضعیفی کی سزا پا رہی ہے یا زندہ درگور ہونا اس کا مقدر ہے؟ کیا مسلمانیت تو درکنار، ہم انسانیت کے درجے سے بھی گر چکے ہیں؟

میڈیا میں آئے روز ظلم اور وحشت کی نت نئی داستانیں سنائی دیتی ہیں، کبھی حوا کی بیٹی کاری قرار دے کر قتل کی جاتی ہے، کبھی ونی کی بھینٹ چڑھتی تو کبھی ناموس کے نام پر قتل ہوتی ہے، کبھی جہیز نہ لانے پر جلا دی جاتی ہے، کبھی پنچایت کے حکم پر عصمت دری کا نشانہ بنتی ہے، کہیں اس کی نچی کھسوٹی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہیں اور کبھی جنگلوں ویرانوں سے، کبھی داعش جیسے نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں جنسی کھلونے کے طور پر بازاروں میں بکتی ہے تو کبھی اس کو بے لباس کر کے گلیوں بازاروں میں گھمایا جاتا ہے۔

مختاراں مائی، زینب، نسیم بی بی، نور مقدم جیسی کتنی ہی ظلم کی داستانیں منظر عام پر آئیں لیکن رسوائی کے ڈر سے اکثر واقعات سامنے نہیں آتے اور حوا کی بیٹیاں اپنی تار تار عصمتوں اور زخم زخم جسم و روح کے ساتھ زندہ درگور ہو جاتی ہیں، یہ مظلوم مخلوق کہیں بھی محفوظ نہیں ہے، اکثر واقعات میں یہ قریبی رشتوں کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے لیکن گھر، بازار، سکول اور مدرسہ کہیں بھی اس کے لئے جائے امان نہیں ہے ہر جگہ ہوس کے پجاری اور عصمتوں کے شکاری اپنے خوں آشام دانت تیز کیے گھات لگائے ہوتے ہیں، ظلم کا شکار ہونے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ہر طبقے کی عورت پامال ہوتی ہے، گھروں میں کام کرنے والی، بھکارن، پردے دار، ماڈرن، شادی شدہ، کنواری، نوجوان، عمر رسیدہ اور بچے، غرض ہر ایک طبقہ اس بربریت کا شکار ہوتا ہے۔

دینی مدرسوں کے مقدس ماحول میں بچے مولوی کے ہاتھوں، سکولوں کی بچیاں استاد کے ہاتھوں، میڈیکل کالجوں میں پروفیسروں کے ہاتھوں، گھریلو خواتین رشتے داروں اور محلے داروں کے ہاتھوں، محفوظ نہیں، حتیٰ کہ جانور تک بھی ان درندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں، بلی کا بچہ، بکری اور اندھی ڈولفن کا ریپ جیسے کتنے واقعات منظر عام پر آئے لیکن عوام اور حکمران خاموش ہیں، کہاں ہیں ریاست مدینہ کا راگ الاپنے والے حکمران؟ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

وہ حکمران کیا ہوئے جو فرات کے کنارے پیاس سے ہلاک ہونے والے بکری کے بچے کے بھی خود کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے؟ آج کے حکمران اور ان کے گماشتے ہر خرابی کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور ان کے چمچے ان کے ہر اقدام کا ڈھٹائی سے دفاع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، عوام یہ سمجھ کر خاموش ہے کہ دوسروں کے گھروں میں لگنے والی آگ ابھی ان کے گھر سے دور ہے، نور مقدم ماڈرن طبقے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے اس کے لئے جلوس بھی نکلے، شمعیں بھی روشن کی گئیں اور فنڈ بھی جمع کیے گئے لیکن نسیم بی بی کے لئے کتنی آوازیں بلند ہوئیں؟ وہ ایک پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے درخور اعتنا نہ ٹھہری؟ کیا امیر و غریب کی تقسیم سے ہمدردیاں اور قانون بھی تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں؟

بنت حوا کی مظلومیت درد و الم کی خونچکاں داستان ہے، یہ ایک مسلسل مرثیہ ہے یہ شام غریباں کی کہانی ہے، یہ ایک ایسا دردناک نوحہ ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے، جانے کب ظلم کی اس سیاہ رات کا اختتام ہو گا؟ اس وحشت اور بربریت کے سیلاب پر کب بند باندھا جائے گا؟

جب تک پولیس اور عدالتی نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی اس المیہ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ نظام مظلوم کو انصاف دینے سے قاصر ہے اور ظالم سزا سے بچ نکلتا ہے، مظلوم کئی سالوں تک عدالتوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہوتا ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ یہ اس بے حس معاشرے میں مظلوم کوہی قصور وار ٹھہرانے (Victim Blaming) کا چلن عام ہے، اگر سزاوں کے نظام پر سختی سے عمل کیا جائے تو ان مظالم کا کسی حد تک سدباب ممکن ہے، جیسے عورتوں کے ساتھ زیادتی کے کیسوں کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتوں اور تفتیشی نظام کا قیام جس سے انصاف کی جلدی فراہمی ممکن ہو اور اس کے ساتھ ساتھ مجرموں کو سر عام سزا دے کر نشان عبرت بنایا جائے تو اس ظلم کی کسی حد تک روک تھام ہو سکتی ہے۔

ہمارا بے لگام معاشرہ بے مقصدیت کے باعث مسلسل انحطاط پذیر ہے اور اسلامی اور معاشرتی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں، ایسے میں لازم ہے کہ اس قوم کو ایک بامقصد اور مثبت سمت میں گامزن کیا جائے اور یہ صرف حکومتی اقدامات سے ممکن نہیں ہے اس میں معاشرے کے تمام افراد، مذہبی و سیاسی راہنماؤں، اساتذہ، عدلیہ اور میڈیا سب کو موثر کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ قوم کی مجموعی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے اور اس ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments