افغان خانہ جنگی اور ہماری غلط فہمیاں


کیا افغانستان ایک بار پھر مالی بحران اور خون ریزی کا شکار بننے جا رہے آگر ہم لوگ حالات کا دوسرا رخ دیکھیں اور افغانستان کے حالات پر نظر ڈالیں کہ کیا افغانستان گزشتہ بیس سالوں سے سے خانہ جنگی کا شکار نہیں۔

کیا امریکی فورسز اور نیٹو ممالک نے نے متعدد بار افغان شہریوں پر بمباری نہیں کی۔ کیا انہوں نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔ اب امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ہر طرح سے یہ صدا بلند ہے کہ افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا لیکن کچھ حلقے ان حالات کو اور ماضی کے حالات کو ایک ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان کو اور افغان فورسز کو ایک ایسے وقت میں میں چھوڑ کر جا رہا ہیں جب نہ حکومت اور نہ ہی افغان فورسز کسی قسم کی مزاحمت کی قوت رکھتی ہے لیکن دوسری جانب ماضی کا ذکر ہو تو جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی اور وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جیسا کہ امریکہ رات کی تاریکی میں فرار ہو رہا ہے دوسری جانب 90 کے دہائی میں افغانستان میں خانہ جنگی اس وجہ سے ہوئی کیوں کہ اس وقت افغانستان میں متعدد جہادی تنظیمیں موجود تھیں اور وہ آپس کی لڑائی میں ہزاروں افراد مارے اور زخمی ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں میں افغان پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

لیکن اس بار افغان حکومت اور طالبان کے درمیان لڑائی چل رہی ہے اور شمالی علاقوں کے لیڈرز متحد ہو رہے ہیں تورن اسمعیل خان، عطاء محمد نور اور احمد شاہ مسعود کا بھائی طالبان کے ساتھ جنگ کے لئے متحرک ہوچکے ہیں دوسری جانب افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اس وقت جنوب اور شمالی میں شدید لڑائی ہو رہی ہے اس لڑائی میں اب تک سینکڑوں کی تعداد میں عام افغان شہری مارے اور زخمی ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، عام شہری طالبان اور افغان حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ یہ خون ریزی بند کی جائے اور یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔

طالبان دعوی کر رہے ہیں کہ اب تک دو سو سے زائد افغانستان کے مختلف اضلاع پر وہ اپنا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اور افغان ملی اردو کے جوان ان کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے حکومت اور افغان عوام اس خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ اگر ایک بار پھر افغانستان پر طالبان کی حکومت آئی تو ملک میں افراتفری اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو کیا وہ افغان ملی اردو اور افغان حکومت کے انٹیلی جنس ادارے سمیت باقی اداروں کے ساتھ کے ساتھ سلوک کریں گے، جیسا 90 کے دہائی میں ہوا

کیا طالبان اس پورے نظام میں تبدیلی لائیں گے؟

دوسری جانب افغان طالبان ذرائع کے مطابق کہ وہ ملی اردو اور باقی اداروں میں اصلاحات لائیں گے اور یہی نوجوان ایک اسلامی نظام کے تحت ہمارے ساتھ مل کر ملک اور قوم کی خدمت کریں گے

افغان طالبان کا یہ بھی کہنا ہے ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں ان کے ہزاروں کی تعداد میں جنگجو سکیورٹی فورسز اور غیر ملکی فورسز کا نشانہ بنے جس کے نتیجے میں میں ہزاروں افراد مارے گئے اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران افغانستان میں امن امان لانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کریں تاکہ یہ خطہ ایک بہت بڑی تباہی سے بچ جائے۔ اگر خدانخواستہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے اپنا کردار ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کیا تو افغانستان کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ اس پورے خطے کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments