سندھ کارڈ کیوں؟


سرکار شاید اپنے کار خیر سے اس قدر تھک چکی ہے کہ اس کے پاس توجہ دینے کے لیے اور کوئی معاملہ درپیش نہیں ہے اس لیے ہر چند دن بعد اسے بغض سندھ کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔

سیاسی و لسانی تنظیمیں اس کھیل میں مصروف عمل رہتی ہی آئی تھیں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی مگر ایسا پہلی بار دیکھا ہے کہ ایک وفاقی حکومت کی جانب ایک لسانیت زدہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جس سے نفرت کے سوا اور کچھ بھی پنپنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ سندھ یا سندھی صرف ایک زمیں کے ٹکڑے یا زبان کا معاملہ نہیں ہیں یہاں سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں۔

وفاقی حکومت دیگر معاملات میں اپنا لوہا منوا چکی اور دنیا سے اس کی داد بھی سمیٹ چکی اس لیے اب اس کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے تو چلے ہیں قلعہ سندھ فتح کرنے۔ وہ قلع سندھ جسے ایم کیو ایم جیسی دیمک جماعت بھی صوبے میں اپنی کثیر تعداد ہونے کے باوجود بھی کبھی فتح تو دور گزند بھی نہ پہنچا سکی اور اب آپ انہی کی خواہش پہ بحیثیت ایک حکمران (جس کا یقین آپ کو خود بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ مجھے ) چلے ہیں ایک لسانیت سے بھرپور معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانے۔

جہاں سوال آپ سے آپ کی اپنی کارگردگی اور قابلیت کا ہوتا ہے وہاں آپ کے پاس آئیں بائیں شائیں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح آپ نے ایک بار پھر کراچی سے اپنی اتحادی جماعت کے جتھے کو خوش کرنے کے لیے صوبہ سندھ کے عوامی جذبات کے ساتھ سیاست کرنے کی کوشش کی جو کہ کامیاب تو اس دفع بھی نہ ہوگی پر اچھا ہے کہ صوبہ سندھ اور خاص طور سندھی بولنے والے حامیان تحریک انصاف کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ثابت ہوگی۔

سندھ اور سندھی کسی زبان اور زمینی خطے میں نہیں بٹے ہوئے۔ ہر وہ شخص سندھی ہے جو یہاں آباد ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان سے ہو یا کسی بھی رنگ و نسل سے۔ ہر وہ شخص اتنا ہی سندھی ہے جتنا اسے پنی دھرتی سے پیار ہے۔ عوام کو عوام سے لڑوا کر آپس میں رنجشیں پیدا کرنے سے سیاسی فوائد اٹھانا ایک پرانی رسم ہے اور ڈیوائیڈ اینڈ رول اسی کا نام ہے۔ اردو بولنے والے میرے عزیز دوست و بہن بھائی اتنا شعور ضرور رکھتے ہیں کہ ایک ہی سانپ سے دوسری بار نہ ڈسے جائیں اور اس دفع وہ سانپ تحریک انصاف کے روپ میں ہے۔ ایم کیو ایم کے دور میں ہی آپ بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے جس کی بھرپائی اب تک نہیں ہو پائی۔

سندھ ایک جنون ہے، جہاں بات سندھ کی ہو وہاں آپس میں بھلے کچھ بھی ہو ہم سب ایک تھے اور رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments