افغان تنازعہ اور پشتون قومی جرگہ


پاکستان مزدور کسان پارٹی کے چیئرمین افضل خاموش ایک غیر متنازع اور مخلص قوم پرست رہنما کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ بیاں مقرر کے طور پر جانے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹی اور غیر پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود وہ افغانستان کے سلگتے موضوع پر ایک بڑا قومی و سیاسی جرگہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس جرگے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) جیسے بعد المشرقین رکھنے والی پارٹیوں نے نہ صرف اس جرگے میں شرکت کی بلکہ ایک دوسرے کے موقف کو خندہ پیشانی سے سنا اور جرگہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں کامیاب ہوا۔ مشترکہ اعلامیہ میں دس مارچ دو ہزار اکیس کو عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والے جرگے کے اعلامیے کی تائید کی گئی اور مزید چند نکات اس میں شامل کیے گئے۔ یہ اضافی نکات کالم کے آخر میں دیے جائیں گے مگر اس سے پہلے جرگے کی مختصر روداد پیش خدمت ہے۔

تقریباً بارہ بجے شروع ہونے والا جرگہ بلا تعطل شام پانچ بجے تک جاری رہا۔ پاکستان مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور سرگرم قوم پرست رہنما شکیل وحید اللہ نے نہایت خوش اسلوبی اور تحمل کے ساتھ نظامت کے فرائض ادا کیے ۔ جرگے میں صوبہ بھر سے چیدہ چیدہ قوم پرست رہنماؤں اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اکابرین اور وفود نے شرکت کی۔ مقررین میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے میاں افتخار حسین اور ایمل ولی خان، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پاو، پیپلز پارٹی کے انجینئر ہمایوں، جمیعت العلماء اسلام (ف) کے عبدالجلیل جان، جماعت اسلامی کے صابر حسین اعوان، پی ٹی ایم کے منظور پشتین اور محسن داوڑ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مختیار یوسفزئی، نیشنل پارٹی پختونخوا وحدت کے مختار باچا، عوامی ورکر پارٹی کے حیدر زمان، اولسی تحریک کے ڈاکٹر مشتاق، تورسرو سادر کی وگمہ فیروز کے علاوہ صحافیوں میں سلیم صافی، عقیل یوسفزئی اور راقم الحروف شامل تھے۔

آخر میں میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں اگرچہ زبان و بیان نسبتاً معتدل ہے مگر جرگہ کے دوران بعض مقررین کا لب و لہجہ انتہائی سخت دو ٹوک اور تنقیدی تھا۔ خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے کہا کہ میں افغانستان کو پڑوسی ملک نہیں سمجھتا یہ میرے آبا و اجداد کا ملک ہے۔ ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ امریکہ اور ایران سمیت دوسرے ممالک بھی افغانستان میں مداخلت کر رہے ہیں مگر میں ان کو الزام کیوں دوں جبکہ ہمارا اپنا ملک پاکستان امریکہ کی غلامی میں افغانستان میں مداخلت سے باز نہیں آتا ہے۔

انھوں نے سوال کیا، مجھے بتایا جائے کہ آج بھی طالبان کے ٹریننگ سنٹر کہاں واقع ہے؟ ہمارے اپنے ریٹائرڈ فوجی جرنیل بار بار کہتے اور لکھتے ہیں کہ ہم نے طالبان کو کہاں کہاں ٹرین کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی طرح آج بھی ہزاروں دہشت گردوں کو سرحد پار بھیجا جاتا ہے اور واپس لانے والی لاشوں کو جھنڈے میں لپیٹ کر سلامی دی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا ہم تو ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہے لیکن پاکستان بتائے کہ کیا وہ ہمیں پاکستانی تسلیم کرتا ہے یا نہیں، ہمیں کیوں بار بار وفاداری کا ثبوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ایمل ولی نے کہاں میں ریاست کو سرعام کہنا چاہتا ہوں کہ ریاست کی جانب سے پشتون عدم تحفظ کا شکار ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم ریاستی اداروں پر اعتماد کی بجائے اپنی حفاظت خود شروع کرنے پر مجبور ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پشتون سیاسی و قومی رہنماؤں، صحافیوں سماجی کارکنوں کے اغوا اور شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تو ہم نامعلوم کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے ہم نام لے کر کہیں گے کہ آپ نے کیا ہے۔ اے این پی ہی کے میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کی پالیسیاں اور فیصلے ہماری قوم کے حق میں نہیں ہے لہذا اپنی پالیسیاں اور فیصلے تبدیل کیجئے۔ دوغلی پالیسیاں ترک کیجئے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں افغانستان میں غیر جانبدار رہنے کا جو اعلان کیا ہے اس پر من و عن عمل کیجئے۔ تاکہ ہم افغانستان کے شعلوں پر تیل ڈالنے کی بجائے اس کو بجھانے میں مددگار بن سکے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیر پاو نے کہا۔ کہ امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدے میں طالبان کو افغانستان کی ڈیفیکٹو حکومت تسلیم کر لیا ہے۔ کیونکہ انھوں نے طالبان سے افغان سرزمین کو ان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی جو گارنٹی مانگی ہے اس قسم کے معاہدے اور گارنٹی صرف کسی ملک کے حکمران ہی دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک طرف دعوی کرتا ہے کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر ہم نے مجبور کیا دوسری طرف کہتے ہیں کہ اب ان پر ہمارا اثر و رسوخ نہیں رہا۔ یہ دوغلا پن مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں جمہوری نظام کی حمایت اور زبردستی کرنے والوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے وہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی چلاتی ہے۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے منظور پشتین نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال دراصل بیجنگ اور واشنگٹن کی معاشی جنگ کا نتیجہ ہے۔ جس طرح پہلے یہی خطہ روس و امریکہ کی جنگ کا مرکز رہا، پھر طالبان اور امریکہ کی جنگ میں جلتا رہا اب ایک مرتبہ پھر چین اور امریکہ طبع آزمائی کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے جنگ کا مرکز وہی پشتون خطہ افغانستان اور پاکستان کی پشتون علاقے ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس صورتحال میں پاکستان کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہ کرائے کے گوریلے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ چین اور عرب دنیا تینوں پاکستان کو اپنی اپنی کالونی بنانا چاہتے ہیں مگر پاکستان کے مقتدر حلقے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے میں سہولت سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت چین بھی ناراض ہے اور وہ پاکستان پر مزید اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ منظور پشتین نے مذہبی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ افغان جنگ کے دوران اپنی پالیسی واضح کریں کہ کیا ووٹ اور جمہوریت کے ذریعے اقتدار صرف پاکستان کے لئے ضروری ہے یا افغانستان میں بھی یہی طریقہ اپنا نا چاہیے۔

افغان امور کے ماہر سینئر اینکر اور تجزیہ کار سلیم صافی نے سیاسی قیادت سے مطالبہ کیا کہ اپنی گفتگو سے دو رخی نکالے اور واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ میڈیا سمیت ملک و قوم کی رہنمائی کرے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ دو ہزار چودہ میں بھی امریکہ نے طالبان کے ساتھ قطر میں اسی طرح ڈیل کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے دو ٹوک موقف اور بھرپور مخالفت کی وجہ سے وہ ڈیل پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ مگر اس بار اشرف غنی نے کمزوری دکھائی، اور امریکہ طالبان ڈیل پر رضامندی ظاہر کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار دیا۔

انھوں نے الزام لگایا کہ افغانستان میں موجودہ حالات کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ حالات کا مشاہدہ کریں کہ ان علاقوں سے افغان فورسز پسپا ہو رہی ہے جہاں پر شمالی اتحاد اور امریکہ حکمران رہی ہے یعنی غیر پشتون علاقے۔ انھوں نے سوال کیا کہ بگرام ائر بیس خالی کرنے کی اطلاع افغان حکومت سے پہلے طالبان کو کس نے دی۔ انھوں نے کہا ایسا لگتا ہے کہ افغان حکومت میں شامل ذمہ دار عہدیدار امریکہ کی ایما پر درپردہ طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں تاکہ خطے میں طویل عرصے تک بد امنی کو جاری رکھا جاسکے اور چین کی معاشی ترقی اور وسط ایشیا تک رسائی کا راستہ روکا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ طالبان کی سپورٹ میں ایران بھی پاکستان سے آگے ہے۔ مگر ہم صرف پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ سلیم صافی نے سیاسی رہنماؤں سے سوال کیا کہ آپ لوگ بار بار یہی کہتے ہیں کہ پاکستان نے یہ کیا اور پاکستان نے وہ کیا۔ اگر آپ خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں تو پھر آپ لوگوں کو کہنا چاہیے کہ ہمارے ملک نے یہ درست کیا اور یہ غلط کیا۔ انھوں نے کہا کہ جس شخص نے پورے پاکستان کو گالی دی، ہمیں بتایا جائے کہ ہم اس کی مخالفت کریں یا نہ کریں۔ کیونکہ آپ لوگ تو ان سمیت اس کی حکومت کو غیر مشروط طور پر سپورٹ کرتے ہیں۔

اس سے پہلے راقم الحروف نے حاضرین پر زور دیا کہ افغان تنازع عالمی طاقتوں کے مابین معاشی اور سیاسی سپرمیسی کا انتہائی گنجلک معاملہ ہے اس کو اتنا سادہ اور عام فہم نہ سمجھا جائے۔ میں نے سوال اٹھایا کہ اب تک تو طالبان ایک غیر مسلم اور قابض فوج کے خلاف لڑ رہے تھے اس لئے اس کو مسلمانوں کی اخلاقی حمایت حاصل تھی مگر اب ہمیں بتایا جائے کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ہم اقتدار کی اس جنگ کو کیا نام دیں۔ پاکستانی مبہم پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پاکستان اب تک اپنے شہریوں کو یہی باور کراتا رہا کہ امریکہ کو خطے سے نکالنے تک صورتحال مشکل ہے پھر خطے میں امن اور ترقی کا دور دورہ ہوگا مگر اب جبکہ امریکہ نکل گیا۔ پاکستان اس پر تنقید کر رہا ہے اور اس کو یہاں مزید قیام پر آمادہ کر رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیں اشرف غنی کی حمایت اور طالبان کی مخالفت میں حد سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر کل کلاں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جائے تو پھر ہمیں ان کے ساتھ تعلق استوار کرنے میں دشواری نہ ہو۔

میں نے کہا ہمیں کسی بھی فریق کے ساتھ دوستی یا دشمنی بنانے کی بجائے سب کے ساتھ درمیانہ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم اپنے علاقے میں قیام امن یقینی بنانے اور بعد میں کسی بھی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات بنانے میں مشکلات کا شکار نہ ہو۔ میں نے زور دیا کہ تمام موجود جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ وہ قومی سطح کی لیڈر شپ سے ملاقاتیں کر کے ان کو ایک متوازن قومی پالیسی بنانے پر آمادہ کر سکے۔

عقیل یوسفزئی نے بھی میرے اور سلیم صافی کی تائید کی اور کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا واحد ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ایران اور انڈیا اپنے اپنے مفادات کے لئے کس حد تک جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اور روس اس وقت افغانستان میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان دونوں سپر پاور پڑوسی ممالک کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جرگے کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا جس کے مطابق۔

یہ جرگہ۔ افغانستان کے منتخب جمہوری حکومت کو اسلحے کی زور پر گرانے کی بھرپور مخالفت کرتی ہے اور فریقین سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل نکالنے پر زور دیتی ہے۔

افغانستان میں ہر قسم کے تشدد کی مخالفت، امن اور جمہوریت کی حمایت اور تمام پڑوسی ممالک کی جانب سے مداخلت کی مذمت کرتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی جماعتوں اور حکام کو افغان مسئلے پر ایک پیج پر لانے کے لئے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ، یہ کمیٹی ان جماعتوں سے ملاقاتیں کر کے ان کو مشترکہ موقف پر راضی کرے گی۔

یہ جرگہ افغانستان میں جاری جنگ کو ناجائز اور فساد سمجھتی ہے اس لئے فریقین سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے

یہ جرگہ پختونخوا سمیت پاکستان کے کسی بھی علاقے میں نئے غیر علانیہ ٹریننگ کیمپوں کے قیام کی مخالفت کرتا ہے

یہ جرگہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سمجھتا ہے جنھوں نے دوحہ مذاکرات میں اپنے مفادات کا تحفظ کر کے افغانستان کو بے یار و مد دگار چھوڑ دیا۔ یہ جرگہ امریکہ کے اس کردار کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments