موسیقی کا تہوار۔ لاہوتی میلو


ڈیجیٹل دور کے سمندر میں جب سوچ کی نیا انتہا پسندی، اکیلا پن، انا کی دوڑ اور ان گنے اور گھنے سامان کی گٹھڑی باندھ کر حالات کی لہروں کے اتار چڑھاؤ میں بھتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل روزی روٹی کے چکروں میں اپنے وجود سے بھی دور منزل سے بے خبر بس سفر ہی سفر میں ہے۔ جیون کے درخت خالی ہاتھوں سے حسیں سوچوں کے دلدل میں چھپے سقراطوں پر پھولوں کے کفن کی پرساد چڑھا رہے ہیں۔ ہر مہکتا وجود خاموشی کے زاویہ کا ہمسایہ بن گیا ہے۔ جیون کبیر کے الفاظوں، ”لکڑی اور کوئلہ“ کی سیڑھی کو چھلانگ لگا کے صرف ”آگ“ بن گیا ہے۔ جگانے والے لوگ خود ہی ”سو جاؤ، سو جاؤ“ کا شور مچا مچا کے اور جاگے ہوئے وجود کو بے سہارا بنا کے، چلتے وقت کے ساتھ خواہشات کی چادریں پہن کے سو گئے ہیں۔

لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ درد، خوف اور اذیت کی لمبی اور سانس پر بھاری راتیں جب انتہا پر ہوتی ہیں تو اک نئی صبح جنم لیتی ہے۔ اور وہ صبح کبھی کبھی آتی ہے اور مرے ہوئے وجود اور کھوئی جیون میں سانسوں کی سرگوشیاں دیتی ہے۔

کئی سالوں میں گھیرے وجود پر ماضی کے پرکشش لمحوں کو نکال کے کچھ سال پہلے کی بات ہے جب کتابوں کا وقت دھیرے دھیرے ٹیکنالوجی اپنی گود میں ”بلیک ہول“ بن کر لپیٹ رہی تھی، پڑھنے، لکھنے کی عادتیں وصال۔ روزگار کے دھندلے اور ان دیکھے خیالی جزیروں میں دب گئی تھی۔ مشاعرے، اسٹیج ڈرامے، لطیفے جیسے سارے ماضی کے قہقہے تھے جو خماریت کے عالم میں پہلی محبت کی طرح سانسوں کو روک کر سنائے جاتے تھے۔ بارہا تو ساحر من کے بھیتر سے بول اٹھا تھا کہ، ”مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ“ ۔

سات، آٹھ سال پہلے کی بات ہے، ڈجیٹل دور کا نوجوان شاہ لطیف کا سندھی میں گیت ”وائی“ سن رہا تھا، ”میری ماں، میرے دل کے دوست کو لے کا جا رہے ہیں! ) ۔ حیرانی کی سرحد پار کر کے خوشی کی سلطنت میں دیکھا یہ اکیس صدی کا شہزادے جو پوپ سنگیت سے جڑے رہتے ہیں، یہ کون سا فنکار ہے جو نوجوان نسل شاہ لطیف سے آشنا کر رہا ہے اور تشنگی کی یہ حد کہ وہ پورے دھیان سے مگن ہے، کلام ختم ہوتے ہی اس نے کہا،“ دی اسکیچز ”مشہور بینڈ ہے اور یوں“ سیف سمیجو ”کا نام میرے کانوں میں پڑا۔

دھیرے دھیرے شوق کا نشہ عادت کے ساغر میں ڈھلتا گیا، ”اک انسان بنایا میکوں“ ، پہلی مرتبہ ایک سندھی فنکار کو ہارمونی سے ہٹ کے موسیقی کے جدید آلات گٹار پر سنا۔ اور واقعی پہلے ملاقات میں وہ انا، طاقت اور خمار میں گھیرے ہوئے کئی مشہور آدمیوں میں ایک اچھا انسان ملا۔

سیف سمیجو جدت کا نام ہے۔ اس نے شاہ لطیف، سچل سرمست، استاد بخاری کو اپنے طرز میں نئے انداز سے گایا ہے۔ اس کی آواز، ”دھیان یوگ“ کی طرح ہے جو خود بہ خود من کے بھولے انسان کو اپنی کھوج میں لگائے رکھتے ہے۔ میرے دوست فراد جرال کہتے ہیں کہ ؛ سیف سمیجو دل سے گاتا ہے اس کی آواز میں وہ مٹھاس ہے کہ اس کی گائی صدا کو سن کے سانسیں میرا کا گھنگرو باندھ کے ناچنے لگتی ہیں۔ مھر ڈھبائی کا یہ گیت،

”خود سے جدا ہوکے کیا ڈھونڈتے ہو، او پاگل کہاں خدا کو ڈھونڈتے ہو“ ، کیا مدھر آواز ہے جیسے سحرا موج کو ترسے، جیسے جنونی کھوج کو ترسے۔ سیف گاتے وقت اپنی دھن میں کھو جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے یہ سروں کی نیا سے من کے مندر میں بیٹھے مسافر کو ”مجازی سے حقیقی کا سفر“ کروا رہا ہو۔ کئی گیتوں کو اس نے نئی روانی دی ہے۔ سردار شاہ کی شاعری، ”من پنچھی ہے من تتلی ہے“ جب سیف گاتا ہے ایسے لگتا ہے گلزار جی لفظوں کو تتلیاں بنا کر سرحد کے اس پار سے آئے ہوئے مہمانوں کے ہاتھ بھیج رہے ہوں۔ اور سنتے وقت الفاظ بیٹھے سبھی لوگوں کے اندر کے سادھو کا آرتی کی طرح سواگت کرتے رہتے ہیں۔

اس خوبصورت کلاکار نے کلا کی دنیا میں ایک نیا اور منفرد مقام بنایا ہے۔ اس کے پاس ”گیتوں کی سلیکشن“ کا اپنا ہی انداز ہے۔ وہ لفظوں کے پیچھے بھاگنے بجائے مقصد کی طرف دیکھتا ہے۔ بڑی سادگی سے وہ کوی (شاعر) کی کویتا (شاعری) کو گنگناتا ہے اور جو دل کو چھو جائے بس فقط وہی گاتا ہے باقی الفاظ گنگنانے تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ”ہم تو ہیں بھولے آدمی“ تھرپارکر کے مقامی شاعر امام علی جنجھی کی شاعری کو اس طرح سے گایا ہے کہ تھر کے بدلتے مناظر کو بادلوں کی طرح تکتے ہر تھری باشندے کی دل پر یہ گیت گونجنے لگا ہے۔

سیف سمیجو کے ذہین میں آرٹ کا ایک منفرد پہلو ہے، وہ قدرتی وسائل اور بنیادی حقوق جیسے مسائل کو بھاری کتابوں، رپورٹس اور ریسرچ کے بجائے آرٹ اور موسیقی کی بہت ہی سادہ زباں میں ڈال کر لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ”اسکیچز بینڈ، لاہوتی لائیو، ونٹر لوریز کے“ ایک دہائی والے سفر کا پودا اب بڑا بن کے گھنا درخت ”لاہوتی میلو“ بن گیا ہے جو لاکھوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے اور جس کے تلے کئی نوجوان آرٹ کی دنیا میں اپنا ٹیلنٹ دکھا رہے ہیں۔

لاہوتی ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جو پاکستان میں موسیقی اور آرٹ کو ایک مکمل ہی نیا تصور دے رہا ہے۔ اس تصور کے البم میں پاکستان کے کونے کونے میں جا کے کئی آرٹ سے منسلک نئی تصویریں لگائی جا رہی ہے جو دن بہ دن نوجوان نسل کو ”فوک میوزک“ کے بجائے ”لوک موسیقی“ طرف راغب کرتی ہے۔ وہ موسیقی اور پروگرام جو سندھ میں اپنی حسنتا کھو رہا تھا، جانے پہچانے آرٹسٹ کا سننے والا حلقہ بہت ہی محدود ہو گیا تھا، سیف سمیجو نے ان سب کو اسپیس دی ہے اور نہ فقط سندھ، پاکستان بلکہ باہر کے کئی ممالک کے آرٹسٹوں کو ”لاہوتی میلو“ نے جوڑنے کا کام کیا ہے۔

کرونا کی وبا نے جب ”ہم کو ہم تک“ محدود کر دیا ہے، معاشی تنگی کے ساتھ سپریشن، آئسولیشن اور ڈپریشن بڑھنے لگی ہے، نوجوان کالیجز اور یونیورسٹیز بند ہونے کی وجہ سے گھروں تک ہی محدود اور قید ہو گئے ہیں، دی اسکیچز کی ٹیم نے ”ڈجیٹل لاہوتی میلو“ کا انعقاد کیا ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں سے فنکاروں کی رکارڈنگ کی ہے اور کچھ لائیو سیشن چلا کے پریشان کن لوگوں کو نئی زندگی دی ہے۔ اور اب ٹویٹر پر ”لاہوتی میلو 2021“ پاکستان کا ٹاپ ٹرینڈ بن کے چل رہا ہے۔

”سیلیبریٹنگ انڈس“ کے موضوع پر سجے اس میلے نے کئی رنگ بکھیرے ہیں۔ سندھو ندی کی بہتی روانی، ماحولیات کی آلودگی، کلچر کی خوبصورتی، موسیقی کی مدھر دھنیں، سائنس اور آرٹ کے میلاپ سے لے کر کئی طرح کے پھول لاہوتی میلو کے گلدان کا حصہ بنے ہیں۔

رجعت پسندی اور شدت پسندی کی چڑھتی تلواروں پر ”لاہوتی میلو“ اک ڈھال بن کے ابھرا ہے۔ پردے کے پیچھے اس خوبصورت پردے کو سجانے والی پوری ٹیم مبارک کے مستحق ہے۔ سیف سمیجو کی آواز روی کی ستار، مونا لیزا کی مسکراہٹ اور رادھا کی بانسری کی طرح ہر دھڑکتے دل میں ”محبوب کی پہلی مسکراہٹ“ بن کے بیٹھ گئی ہے۔ سیف سمیجو کے ساتھ ہر نوجوان کو بہت ساری امیدیں ہیں اور اس کے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں کہ ایک دنیا ”لاہوتی میلو“ کے رنگ پوری دنیا میں جگمگائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments