درخت زندگی کا مقصد ہیں


جب پہلے انسان نے اس دنیا پر قدم رکھا تو اسی دن سے ہی زندگی گزارنے کے لیے مختلف طریقے متعارف ہوئے۔ انسان اپنی زندگی میں کیا کیا کمالات رکھتا ہے۔ یہ سارا کچھ اسی دن سے دکھائی دینے لگ گیا۔ اسی لیے انسانی فطرت کچھ ایسے ہی ہے۔ جیسے انسانی دماغ میں خیالات اور وسوسہ پیدا کیا جائے گا۔ وہ ویسے ہی زندگی کے اصول متعارف کروانے کی کوشش کرے گا۔ اسی لیے اگر انسانی زندگی میانہ روی کے اصولوں پر گزاری جائے تو اس جیسی دوسری زندگی نہیں۔

لیکن انسانی فطرت میں لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ہمیں ہماری زندگی میں اگر تھوڑا سا فائدہ بھی ہو رہا ہو تو ہم فوری طور پر اصول زندگی بھول کر منفی راستے کو ہی اپنے لیے خیر کا راستہ سمجھنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ہماری بہت بڑی بھول ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت کے بھی کچھ کام ہیں۔ جن کو دیکھنے والے لوگ کچھ مثبت اور کچھ منفی سوچ سے ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں سے حکومتی پراجیکٹ بھی کچھ ایسے ہی عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

بلین ٹری اس کی ایک زندگی مثال ہے۔ یہ بات بھی حقیقت سے خالی نہیں کہ جو پودا تین سے پانچ کا تھا وہ حکومتی سطح پر تقریباً تیس سے پچاس روپے میں پڑ رہا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے یہ پہلی حکومت ہے جو اس کام پر اتنی توجہ دیے رہی ہے۔ اور ہر لیور پر سر سبز پاکستان کے خواب کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ اسی بلین ٹری گرین کی بدولت حکومت پاکستان نے قبضہ مافیا سے سالوں پرانا رقبہ بھی بازیاب کروایا۔ اب اس زمین میں سر سبز درخت ہی درخت نظر آتے ہیں۔

اور اس کا میں خود گواہ ہوں۔ اگر آپ میاں چنوں ٹال پلازہ سے مشرق کی طرف جائے تو راستے میں ایک منی سٹی آتی ہے۔ جس کا نام اقبال نگر ہے۔ اسی اقبال نگر سے آپ شمال کی طرف تقریباً چھ سے ساتھ کلو میٹر فاضلہ کرے گے۔ آگے ایک بڑی نہر آئیے گی جس کا نام (لوئر باری دوآب) ہے۔ یہ نہر پچھلے دس سالوں میں درختوں سے خالی ہوگی تھی۔ اور اس کے اردگرد والے آٹھ سو میٹر تک رقبہ پر با اثر شخصیات نے قبضہ کر رکھا تھا۔ میں جب بھی اپنے گھر جاتا ہو تم ہو اسی نہر سے گز کر جاتا ہوں۔

پہلے تو صرف فصلوں کے سبزہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ مگر اس دفعہ جب میں اپنے گاؤں 123 / 7 ای آ ر گیا تو یقین جانیں میرا دل خوش ہو گیا (لوئر باری دو آب) کے اردگرد تقریباً پانچ سو میٹر سے زیادہ رقبہ پر بہت ہی پیارے اور سر سبز درخت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس میں شیشم، کیکر، پیپل اور کہیں مختلف قسم کے درخت آگ چکے ہیں۔ اور یہ اپنی جوانی میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حکومت کا بے شک ایک مہنگا ترین منصوبہ ہے۔

مگر ماضی سے مستقبل میں اس کے بہت بڑے ثمرات حاصل ہو گئے۔ اس منصوبہ کے تحت ہمارے ملک میں بڑھتی گرمی کو روکا جاسکتا ہے۔ اگر اسی طرح درختوں کی آ بیاری کا کام پورے پاکستان میں شروع کر دیا جائے۔ تو سوچے پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کو کیسا میسج ملے گا کہ پاکستان ایک ماحول دوست ملک ہے اگر ہم صرف تنقید ہی تنقید کرتے رہیں گے تو فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا۔ کیو کہ حکومتی نمائندوں میں اتنی برداشت نہیں ہے وہ ہماری بات برداشت سکے۔

اسی لیے میں یہ عرض کرتا ہو کے آ گے دو دن بعد 14 اگست ہے۔ اسی دن ہم اور ہمارا ملک آزاد ہوئے۔ اور ایک اسلامی ریاست کا قیام مکمل ہوا۔ آہیں ہم سب مل کر ایک عزم کرتے ہیں کہ اس دن ایک ایک پودا لگائیں گے اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کی طرح اس پودے کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔ اور اگلی آ نے والی چودہ اگست تک اس کی ایسے ہی حفاظت کریں گے۔ جیسے ملک پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمارے سپوت نوجوان ہمارے فوجی بھائی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

اور ہم زمانہ امن میں زندگی گزارتے ہیں۔ ہمیں امن کی زندگی میں رہتے ہوئے ایک پودے کی حفاظت کو یقینی بنا کر پوری دنیا کو اپنے ہونے کا ثبوت دیں۔ اور دنیا اس بات کا اقرار کریں کہ پاکستان ایک ماحول دوست ملک ہے۔ میں دعا کرتا ہوں ہم ایک ہو کر اس عزم کو پورا کریں اور اپنی آ نے والی نسلوں کے لیے ایک گرین پاکستان کا تحفہ دیں۔ اور پورے ملک کی خوبصورتی کو بحال کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments