فوری مدد کی اپیل


میں ماضی میں اڈیالہ جیل کا اور حال میں کوٹ لکھپت جیل کا رہائشی ہوں اور ایک عرصہ سے دل، جگر، تبخیر معدہ اور بلغمی کھانسی کا مریض ہوں۔ بارہا ان امراض کا علاج وطن عزیز میں ایلوپیتھک ڈاکٹروں سے کروایا۔ اور ہر طرح کی ہو میو دوا، حکیمی چورن اور معجون بھی استعمال کر دیکھی۔ اب یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ کے میں نے اپنا بہت سا نقصان بھی کیا۔ وہ قیمتی خون جو میں نے کشمیر کی آزادی کے لئے سنبھال رکھا تھا وہ بھی ان خطرہ جاں مورکھوں کے کہنے پر ٹیسٹوں میں لٹا دیا۔

جسم کا کوئی حصہ یا عضو ایسا نہیں جس کو ان ظالموں نے علاج کے بہانے ٹٹول کر اس کی تلاشی نہ لی ہو۔ یہ ظلم تو ہوا سو ہوا، بھانت بھانت کے مشورے الگ سے سننے پڑے۔ کوئی ڈاکٹر کہتا کہ میاں صاب یہ سب کولیسٹرول اور بلند فشار خون کا فساد ہے اس لئے آپ قدم بڑھائیں، وزن گھٹائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کوئی کہتا کہ یہ خوراک کی کمی ہے اس لئے آپ کو وزن بڑھانا چاہے۔ امیج بلڈ کرنا ہے تو پہلے باڈی بلڈ کرنا پڑے گی۔ اس لئے دیسی گھی، مکھن، مٹن اور بیف سے، جیسی بھی جھجک آپ کو ہو، اس کو ختم کرنا ہو گا۔

اب ان دونوں میں کون سی بات سے اختلاف کیا جائے؟ کسی نے کہا کہ آپ متلون طبع ہیں اس لئے بادنجان اور ڈھینڈس کا بھرتہ لگاتار چالیس دن روزانہ کھائیں۔ کسی اور نے کہا کہ آپ کا مزاج بلغمی اور سرد کے درمیان درمیان ہے اس لئے آپ مغز اور بونگ کا استعمال بڑھا دیں کیونکہ اطبا کے نزدیک یہی وہ خوراک ہے جو بیک وقت مخرج بلغم بھی ہے اور مقوی اعصاب بھی۔ ایک مشورہ کسی نے یہ بھی دیا تھا کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کے استعمال کیا جائے تاکہ معدہ اور آنتیں نرم ہو جائیں۔

مگر نہ ہی بتانے والے نے بتایا اور نہ ہی میں نے پوچھا کہ اس فعل یعنی مٹی جھاڑنے کے بعد استعمال کس کو کرنا ہے؟ گونگلوؤں کو؟ یا مٹی کو؟! خیر اس طرح کے اوٹ پٹانگ علاج سے باقی سب میں کچھ نہ کچھ افاقہ ضرور ہوا مگر کھانسی کا عارضہ ایسا تھا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کوئی دو برس ہونے کو آئے کہ خاکسار اسی سلسلہ میں دوائی لینے ملک سے باہر لندن آیا تھا بلکہ بجھوایا گیا تھا۔ مگر یہاں آ کر میں دوائی کی فکر کیا کرتا؟ مجھے تو الٹا کمائی کی فکر پڑی ہوئی ہے۔

کیونکہ یہاں اس عاجز کا مستقل ذریعہ آمدن کوئی نہیں۔ دوست احباب میں سے اگر کوئی آتا ہے تو اپنی اپنی توفیق کے مطابق دس، پندرہ یا بیس پاؤنڈ دے جاتا ہے۔ یا پھر جمعہ کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے باہر کھڑا ہوتا ہوں تو گلے ملتے ہوئے خالصتاً بہ فضل ربی دوسروں کی جیبوں سے کبھی پانچ اور کبھی دس پاؤنڈ کے نوٹ گر کے میری واسکٹ کی جیب میں آ جاتے ہیں۔ جس پر میں کئی دفعہ خود بھی حیران ہوتا ہوں۔ آپ لوگوں نے یہ تو دیکھا ہوگا کہ میں کیسے ہر وقت ”ووٹ کو عزت دو“ ”ووٹ کو عزت دو“ جیسے کرارے نعرے ہر جلسہ اور ہر تقریب میں لگوایا کرتا تھا۔

مگر صاحب سچی بات یہ ہے کہ ووٹ سے ڈبا تو بھر سکتا ہے، پیٹ نہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں ووٹ جائے بھاڑ میں، نوٹ کو عزت دو۔ نوٹ کی قدر کرو۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ میری اپنی پارٹی سمیت ہر کسی کو میرے سیاسی مستقبل کی فکر لگی ہوئی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ میں اکیلا اس پرائے دیس میں کماؤں گا کیا اور کھاؤں گا کیا؟ یہ لوگ مجھ سے فون پر لمبی لمبی تقریریں تو کروا رہے ہیں مگر اتنی لمبی کالوں کا بل کون دے گا؟

ملنے والوں میں سے بھی ہر کوئی یہ تو پوچھتا ہے کہ میاں صاحب واپس کب جا رہے ہیں؟ مگر اتنی توفیق کسی کو نہیں ہوتی کہ یہ بھی پوچھ لے کہ بھائی واپسی کا کرایہ اور ٹکٹ بھی ہے کہ نہیں؟ یہاں حالت یہ کہ گھر کی دال روٹی کر کے جو قلیل رقم بچ جاتی ہے وہ سرخی پاؤڈر اور فٹنس وغیرہ پہ لگ جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ بھلے وقتوں میں میرے ہونہار بچوں نے جب وہ صرف تین تین سال کے تھے ابا جی مرحوم مغفور کی پنشن سے کمیٹیاں ڈال رکھیں تھیں۔

بعد ازاں، انہی کمیٹیوں کی آمدن سے ان نونہالوں نے ایون فیلڈ میں پانچ پانچ مرلے کے دو چھوٹے سے فلیٹ لے لئے تھے تاکہ اس تنگ و تاریک شہر میں عبادت، اعتکاف اور صوم و صلاۃ  کا ناغہ نہ ہو۔ اس لحاظ سے اس جائیداد کو صدقہ جاریہ ہی سمجھنا چاہیے۔ یہ متاع قلیل بھی غنیمت ہے ورنہ آج سر پہ چھت بھی نہ ہوتی۔ اور میں گلے میں لٹکے گتے کے بورڈ پر ”سب مایا ہے“ لکھوا کر لندن ٹیوب میں سو رہا ہوتا۔ یہاں مالی حالات تو تنگ ہیں ہی، کھانے پینے کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں۔

جس کو دیکھو سالا ہمدرد بنا پھرتا ہے اور پرہیزی کھانوں کے علاوہ بات ہی نہیں کرتا۔ پچھلے دنوں ایک ریستوران میں نہاری کا آرڈر دیا تو بیرے نے پہلے تو پہچان کر کہا کہ آپ ایڈوانس پیمنٹ کریں۔ اس کے بعد ایک اور ویٹر آیا تو کہنے لگا میاں صاحب آپ بیمار ہیں۔ آپ نہاری کھائیں گے؟ میں نے جل کر کہا نہیں۔ صرف سونگھوں گا۔ وہ نادان خدا جانے کیا سمجھا۔ آدھ گھنٹے بعد نہاری کا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا۔ میاں صاحب سونگھ لیجیے۔ میں نہاری کے خوشبو سے ایک لمحہ کے لیے مست کیا ہوا، وہ پیالہ اٹھا کر چلتا بنا۔ اور مجھ زود پشیماں کے ہاتھ سے نہاری بھی ایسے ہی گئی جیسے حکومت گئی تھی۔

اب حالت یہ کہ جیب میں ٹکا نہیں اور روزگار کی کوئی صورت نہیں۔ اور دل کی کیفیت یہ کہ جی کرتا ہے کہ جیسے تیسے بھی ہو، جلد از جلد وطن واپس پہنچ کر اپنی بیرک یعنی کٹھریا میں رونق افروز ہوں۔ بقول شاعر یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔ انسان کم ازکم اپنی مرضی کے کھانے تو کھا لے۔ مگر شدید مالی مشکلات اور رجعت قسمت کا شکار ہوں۔ میرا پاسپورٹ عدم ادائیگیٔ واجبات کے باعث زائد المدت ہو کر کب کا ناکارہ ہو چکا۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے حالات پہ قانع اور مطمئن رہنے والا شخص ہوں۔ کسی سے مدد یعنی ڈکٹیشن لینے کو دل نہیں مانتا مگر پھر بھی احباب کے پرزور اصرار پر اپنی بیماری کی کیفیت اور علاج کا خرچ ہمراہ جملہ رسیدوں کے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوست عرب ممالک کو بھیج چکا ہوں۔ اکثر جگہ سے تو جواب ہی نہیں آیا۔ پچھلے ہفتے ایک قطری بھائی نے جوابی خط جو کہ کیلبری فونٹ میں تھا اس میں لکھا کہ آپ کے حالات سن کر بہت افسوس ہوا۔

خداوند کریم ہمیں ایسے حالات سے بچائے۔ اور ساتھ کہلا بھیجا کہ ہمارا ایڈریس بدل رہا ہے۔ اب آئندہ آپ نے نہیں آنا، ہم خود آپ سے رابطہ کریں گے۔ دو ایک اور عرب بھائیو نے جوابی لفافے میں، ”برادر لا صدقہ، لا خیرات۔ یلہ حاجی یلہ“ کا دو حرفی جواب لکھ بھیجا ہے۔ اب میری ساری امیدیں آپ لوگوں سے ہی وابستہ ہیں۔ میں نے رمضان شریف میں بھی آپ سے اپیل کی تھی۔ اب پھر آپ احباب سے گزارش کرتا ہوں کہ جیسے بھی ہو میرے ساتھ تعاون فرمائیں۔

میں عادی مانگنے والا نہیں، صرف گردش ایام کا شکار ہوں۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ مدتوں پہلے میں کشکول بھی توڑ چکا ہوں۔ خدارا میرا بھرم رکھیے۔ میرا یقین ہے کہ اس بقر عید میں اگر میرا سیزن پوری طرح لگ گیا تو نہ صرف میرے سفری اخراجات پورے ہو جائیں گے بلکہ مز ید چھ مہینے کی دوائی بھی آ جائے گی۔ ایک نئی مشکل بہر حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھ ناچیز کو پیدل، ہوائی، ریل، سڑک اور سمندری سفر سے منع کر رکھا ہے۔ صرف ایک خلائی سفر ہے جس کی اجازت ہے اور میری اپنی طبیعت بھی قدرتی طور پہ اسی طرف مائل ہے۔

مگر اس کے لئے بھی ”خلائی مخلوق“ کی دوستی اور اس کا تعاون ضروری ہے۔ یہاں ابا جی مرحوم و مغفور کا زمانہ یاد آتا ہے جب راقم الحروف کے خلائی مخلوق کے ساتھ انتہائی برادرانہ تعلقات تھے اور راقم خلائی مخلوق سے قدم سے قدم ملا کر یوں چلتا تھا کہ اس میں اور اس مخلوق میں کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا تھا۔ پھر نہ جانے اس دوستی کو کس کی نظر کھا گئی۔ جانے وہ کیا بات تھی جس سے برسوں کے یارانے گئے۔ مگر اتنا ہوا کہ کچھ لوگ ”کپتانے“ گئے۔

یہاں یارانے، دیوانے اور موسم سہانے کے قافیہ پر کئی فلمی گیت بھی یاد آتے ہیں۔ ماضی کے دلکش و حسین مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو ہچکی بندھ جاتی ہے اور آواز رندھ جاتی ہے۔ اگر میں مقدور ہوں اور خلائی مخلوق سامنے ہو تو گلے لگ کر، سر جھکا کر پھوٹ پھوٹ کر روؤں اور پوچھوں کہ اے حبیب! تو نے اس گنج گراں مایہ کو کیا کیا۔ اسے کیوں نکالا۔ بہرحال آپ لوگ دل سے میری مدد کریں۔ اور donation دینے میں ہرگز کنجوسی نہ کریں۔ نیز اس مشکل سفر میں میری کامیابی کی دعا بھی ضرور کریں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن خلائی مخلوق خود میرے پاس آئے گی اور میں بھی جس کا پیا وہی سہاگن گاتے ہوئے خلائی جہاز میں واپس آ جاؤں گا۔

آپ کی مدد کا منتظر
سراپا شرافت، شریف ابن شریف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments