مطالعۂ پاکستان سے معذرت کے ساتھ (1)


اس تحریر میں ماضی کی غلطیوں کو ”قومی راز“ کا نام دے کر ان پر پردہ ڈالنے کی ”چالاکی“ کرنے والی ریاست کی نصابی ”ہوشیاری“ پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔ یوں تو مملکت خداداد کے چوہتر سالہ مسلسل زوال کے بہت سے اسباب ہیں، لیکن اگر اس تناظر میں ایک جملہ لکھنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کیوں کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، اس لئے ہمارے حال میں تیرگی ہے اور مستقبل میں دھندلا پن۔

ہر گزرا ہوا وقت ماضی ہوتا ہے، اور حال کو ماضی بننے کے لئے زیادہ وقت نہیں درکار ہوتا۔ امتحانات کی تیاری کے لئے جو طالبعلم بار بار لکھ کر مشق کرتا ہے، جب وہ امتحان میں بیٹھتا ہے تو مشق کا لمحہ اس کے لئے ماضی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کی غلطی سے سیکھ کر امتحان میں اچھے نمبرز لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بلفرض وہ طالبعلم اگر مشق کے وقت اپنی غلطی کو غلطی تسلیم نا کرے، یا غلطی کو چھپانے کی کوشش کرے، تو امتحان میں اس کے لئے بہتری کی کوئی خاص گنجائش نہیں رہتی۔

اگرچہ کہا جاتا ہے کے اپنی غلطیوں کی جگہ دوسروں کی غلطی سے سیکھنے والا عقلمند ہوتا ہے۔ تاہم اپنے ماضی کی غلطی سے سیکھنے والا بھی عقلمند ہی کہلائے گا، اور غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والے کو بیوقوف کہنے میں کوئی گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ ‏انفرادی سطح پر تو ہم سب اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، تاہم قومی سطح پر ہماری ریاست نے ماضی کی غلطیوں سے کبھی نا سیکھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

اساتذہ اکرام بتاتے ہیں کہ تعلیم جھوٹ اور نفرت سے نجات دلاتی ہے مگر مملکت خداداد میں یہ دونوں عیب سرکاری سر پرستی میں بچوں کو نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اگر آپ حساس طبیعت کے حامل ہیں تو اسکول کے بچوں کو پڑھائی جانے والی مطالعۂ پاکستان کی کسی بھی جماعت کی کتاب پڑھ لیں، آپ کو خود یقین آ جائے گا!

پہلے تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مطالعۂ پاکستان کے نام کی بلا ہے کیا؟ امریکا میں بچوں کو مطالعۂ امریکا نام کا کوئی مضمون نہیں پڑھایا جاتا اور نہ ہی جاپان میں مطالعۂ جاپان نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ یہ مضمون کس نے اور کس لئے ”ایجاد“ کیا؟

ہماری تاریخ کے سیاہ باب میں ایک آمر ایوب خان نے تاریخ، جغرافیہ، شہریات ختم کر کے ایک ملغوبہ معاشرتی علوم کے نام سے جاری کیا جو بعد میں مطالعۂ پاکستان بنا۔ یہ مطالعۂ پاکستان آج تک ہماری ماضی کی حماقتوں کو بھلانے والی سب سے بڑی مشین کا کام دے رہی ہے۔ نیز دینیات بطور مضمون جاری کیا جو اسلامیات بن گیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ان مضامین کو نصاب کا لازمی حصہ قرار دے دیا۔ تب سے یہ دونوں مضامین علم اور پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں۔

مطالعۂ پاکستان نام کا مضمون بنانے والوں کا مقصد تو یہ تھا کے اس مضمون کو پڑھ کر پاکستانی عوام اچھے محب وطن شہری بنیں گے۔ اچھا شہری کیسا ہوتا ہے اور کیا مطالعۂ پاکستان نے ہمیں اچھا شہری بنا دیا ہے؟ مطالعۂ پاکستان پڑھنے سے ہمارے سماج پر کیا اثر پڑا ہے؟ مطالعۂ پاکستان پڑھ کر ہم ماضی کی کون کون سی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے قاصر ہیں؟

ہم ”مطالعۂ پاکستان سے معذرت کے ساتھ“ کے عنوان سے ایک قسط وار سلسلہ شروع کر رہے ہیں، جس میں ان سب سوالوں کے جوابات کھوجنے کی کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments